امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں کوئی فوجی ساز و سامان نہیں چھوڑا بلکہ وہ سامان افغان نیشنل سیکورٹی فورسز نے چھوڑا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں بدھ کو میڈیا بریفنگ کے دوران جان کربی نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا: ’کیا آپ جانتے ہیں کہ اس ساز و سامان کا ذمہ دار کون ہے؟ افغان۔ کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ کیوں؟ یہ ان کا ساز و سامان تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ فوجی ساز و سامان افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا گیا تھا، جنہوں نے بدقسمتی سے اسے چھوڑ دیا۔
جان کربی نے کہا کہ ’افغان فوج نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک کے لیے نہیں لڑیں گی اور جنگی سازوسامان چھوڑ دیں گی۔ اس لیے یہ افغان ہی ہیں جو اس تمام ساز و سامان کی (طالبان کو) منتقلی کے ذمہ دار ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نہیں مانتا کہ اس ساز و سامان کی مالیت سات ملین تھی یا سات ارب لیکن ان اعدادوشمار کو ایک جانب رکھ دیں۔ یہ سامان و سامان بہت کم تھا۔ میرا مطلب ہے کہ بہت ہی کم۔ امریکہ کی ملکیت سامان یا وہ سامان جسے امریکی فوج نے استعمال کیا اور جسے ہم نے افغانستان سے جاتے ہوئے وہیں چھوڑ دیا۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ امریکہ نے جو سامان افغانستان میں چھوڑا ان میں کابل کے ہوائی اڈے پر موجود چند فورک لفٹس شامل ہیں یا پھر سیڑھیاں، جو امریکی فوج کے زیر استعمال تھیں۔
’لیکن وہاں جو ہیلی کاپٹر چھوڑے گئے ان سب کو ناکارہ بنا دیا گیا تاکہ طالبان انہیں دوبارہ اڑا نہ سکیں۔ زمین پر استعمال ہونے والی گاڑیاں جن ایم آر اے پی اور ہمویز شامل ہیں، ان سب کو ہوائی اڈے پر ناکارہ بنا دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہوائی اڈے کے باہر کی ہر چیز، مثال کے طور پر افغانستان میں موجود ساز و سامان اور اڈے، افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کو دے دیے گئے۔ امریکی فوج نے یہ تمام چیزیں منظم طریقے سے افغان نیشنل شکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
جان کربی نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب رواں ہفتے ہی پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے دوران امریکی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو کہ اب خطے کے امن کے لیے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے۔
پیر کی شام اسلام آباد میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی طرف سے چھوڑا گیا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے ان کی پاکستان کے خلاف لڑائی کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے والے فوجی سازوں سامان میں جدید خودکار اسلحے کے علاوہ رات کی تاریکی میں دیکھنے والی ’نائٹ ویژن عینک‘ بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’افغان طالبان نے اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا جس کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے لگ بھگ دو دہائی تک افغانستان میں رہنے کے بعد وہاں سے فوری انخلا کا فیصلہ کیا اور اس دوران وہ بھاری مقدار میں اسلحہ چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔‘
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انخلا کے دوران عسکری ساز و سامان ذمہ دار ہاتھوں میں چھوڑ کر جانا چاہیے تھا کہ بعد ازاں اس کا احتساب بھی ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ لگنے سے ’ان کی لڑائی کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک نیا چیلنج ہے۔‘
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ ’امریکہ کو مورد الزام قرار نہیں دے رہے۔‘ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مربوط تعاون کی ضرورت ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں حالیہ مہینوں میں تیزی آئی ہے اور پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان کی سرزمین پر موجود ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
تاہم افغان طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس عزم پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک خلاف شدت پسندی کے لیے استعمال نہ ہوا۔