فرانس نے ان پانچ افغان خواتین کے پیرس انخلا میں مدد کی ہے، جنہیں افغانستان میں مبینہ طور پر ’طالبان کی جانب سے دھمکیوں‘ کا سامنا تھا۔
پیرس میں فرانسیسی امیگریشن اتھارٹی کے سربراہ ڈیڈیر لیشی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’صدارتی حکم کے ذریعے ان خواتین پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، جنہیں بنیادی طور پر طالبان سے خطرہ ہے کیونکہ یا تو وہ افغان معاشرے میں اہم عہدوں پر فائز ہیں یا پھر مغربی باشندوں سے قریبی روابط رکھتی ہیں۔ یہ معاملہ ان پانچ خواتین کا ہے۔‘
فرانس لے جائی جانے والی افغان خواتین میں ایک سابق یونیورسٹی ڈائریکٹر، ایک سابق این جی او کنسلٹنٹ، ایک سابق ٹیلی ویژن پریزنٹر اور کابل میں ایک خفیہ سکول میں پڑھانے والی استاد شامل ہیں۔
ان میں سے ایک خاتون کے ہمراہ ان کے تین بچے بھی ہیں۔
سال 2021 میں طالبان کے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یہ خواتین ہوائی جہاز کے ذریعے افغانستان چھوڑ کر مغربی ممالک جانے سے قاصر رہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل مغربی حکومتوں یا ان کے مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں افغان باشندوں کو کابل ایئر پورٹ سے یورپی اور امریکی ممالک پہنچایا گیا تھا۔
تاہم وسائل کی کمی کے باعث بہت سے افغان شہریوں خصوصاً خواتین کی بڑی تعداد کو جنگ زدہ ملک سے باہر نہیں لے جایا جا سکا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق یہ پانچ خواتین ہمسایہ ملک پاکستان منتقل ہوگئی تھیں، جہاں انہوں نے عارضی پناہ حاصل کی۔
فرانسیسی امیگریشن اتھارٹی کے سربراہ نے بتایا کہ فرانسیسی حکام نے پاکستان سے ان پانچ افغان خواتین کے انخلا کے انتظامات کیے۔
’فرانس میں انہیں پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹر کیا جائے گا اور انہیں رہائش دی جائے گی، جب کہ ان کی پناہ گزینوں کی حیثیت کی درخواستوں پر غور کیا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح کی پروفائل والی دیگر افغان خواتین کے لیے بھی اس طرح کے انخلا کا عمل ’دوبارہ دہرائے جانے کا امکان موجود ہے۔‘