ہانیہ عامر اور بادشاہ ایک دوسرے کے سامنے رکتے، ہاتھ جوڑ کر سلام دعا کرتے اور پھر والہانہ انداز میں گلے لگ جاتے ہیں۔
کیا واقعی دونوں ایک دوسرے کو ڈیٹ کر رہے ہیں؟ مگر ہمیں دوسروں، بالخصوص مشہور شخصیات کی نجی زندگی میں اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟
پہلے اخباروں کے صفحات اور اب سوشل میڈیا کی دنیا ہمیشہ سکینڈلز کی چٹ پٹی خبروں سے بھری رہتی ہے۔
ایشوریہ رائے اور ابھیشیک بچن کا سین برابر آن ہے، امیشا پٹیل اور مناہل کی بات بھی پرانی نہیں ہوئی۔
تاہم ہماری تازہ ترین دلچسپی ہانیہ اور بادشاہ کی زندگی ہے، جو دبئی میں ایک کنسرٹ میں اکٹھے نظر آئے اور سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔
رواں برس مئی میں بی بی سی ایشین نیٹ ورک سے گفتگو کے دوران ہانیہ سے جب ان کے پسندیدہ گانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے انڈین ریپر بادشاہ کے گانے کا نام لیا تھا۔
اس پر میزبان کا کہنا تھا کہ وہ یہ کہہ کر مزید قیاس آرائیوں کو دعوت دے رہی ہیں۔
ہانیہ نے ہنستے ہوئے کہا، ’نہیں، یہ بہت اچھا گانا ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ میرا واحد مسئلہ یہ ہے کہ میں شادی شدہ نہیں ہوں۔ اگر میں ہوتی تو میں بہت سی افواہوں سے دور ہوتی۔‘
ہم جانتے ہیں کہ بات اتنی سادہ نہیں۔ شادی آپ کو افواہوں سے دور نہیں رکھ سکتی۔
چند روز قبل ایک انٹرویو میں بادشاہ سے ہانیہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، ’ہم جب بھی ملتے ہیں تو خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں اور بس اتنا ہی ہوتا ہے۔
’وہ اپنی زندگی میں خوش ہیں اور میں اپنی زندگی میں۔ ہماری ہم آہنگی شاندار ہے، لیکن لوگ اکثر اس کی غلط تشریح کرتے ہیں۔‘ غلط یا صحیح لوگ تشریح کرتے ہی کیوں ہیں؟
مشہور شخصیات کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں تجسس ایک عالم گیر رجحان ہے۔
یہ محض ہمارے مقامی کلچر تک محدود نہیں، پلیز بھاشن سے اجتناب۔ اس کی ایک مثال برطانیہ کا شاہی خاندان ہے۔
آپ اس دلچسپی کو ’سیلیبرٹی ورشپ‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ موازنہ کرنے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کو جانچنے کی انسانی خصلت ہے۔
مشہور شخصیات ہمارے لیے مثالی طرز زندگی کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں، پیسہ، طاقت، پرتعیش طرز زندگی، شہرت اور حسن ہماری دائمی ضرورتیں یا خواہشیں ہیں۔
شوبز سے وابستہ شخصیات کے پاس وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ہم ان کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں، ان کی زندگیوں میں جھانکتے اور خود سے موازنہ کرتے ہیں۔ یہ خیالی خاکوں میں رنگ بھرنے جیسا ہے۔
یہ موازنہ محض کامیابی تک محدود نہیں، ناکامی بھی ہمراہ ہوتی ہے۔ دپیکا پڈوکون نے جب اپنے ڈپریشن کے متعلق انکشاف کیا، تب خلقت انہیں سننے کے لیے ٹوٹ پڑی تھی۔
اس سے ان کے مداحوں سمیت لاکھوں لوگوں کو تسلی ملی کہ ہم کیا دپیکا جیسی جادو کی گڑیا بھی اس مرحلے سے گزر رہی ہے۔
کہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ خیر ہمارے پاس دولت یا شہرت نہیں تو کیا ہوا، جن کے پاس ہے وہ کون سا خوش ہیں۔
آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ کیا فائدہ اتنی دولت کا؟ رات کو گولیاں کھا کر سوتے ہیں، نیند پھر بھی نہیں آتی۔ شروع میں ہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ یہ گولیاں نیند کی ہوتی ہیں۔
یہ تو تھی موازنے کی بات۔ ایک اور نفسیاتی پہلو یک طرفہ جذباتی وابستگی ہے۔ سوشل میڈیا سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا مگر اب یہ رجحان بہت نمایاں ہے۔
اکثر مشہور شخصیات ہر لمحے سوشل میڈیا پر اپنی نجی زندگی کے معمولات اور معاملات شیئر کرتی ہیں، ان کے پرستار بہت جلد اس وہم یا حقیقت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ انہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں۔
حالانکہ یہ تعلق محض یک طرفہ ہوتا ہے۔ قربت کا یہ احساس مشہور شخصیات کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ جاننے پر اکساتا ہے۔
مشہور شخصیات کی زندگیوں میں دلچسپی لوگوں کے لیے فرار اور تفریح کا بہترین اور سستہ ذریعہ ہے۔
ان کے سکینڈلز، رومانس یا پرتعیش طرز زندگی کے بارے میں جاننا روزمرہ زندگی کی یکسانیت یا دباؤ سے چھٹکارا دیتا ہے۔
ہم دن کے کئی کئی گھنٹے ان کے انٹرویوز سنتے، ان کے بارے میں دوسروں کی رائے جانتے اور انہیں سرچ کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔
یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں؟ لاجواب اننگز کے بعد جسوال کی پانی پوری والی پوسٹیں یاد کریں۔
وجوہات پر تو کچھ بات ہو گئی مگر کیا یہ ضروری بھی ہے؟ کیا زندگی آگے بڑھانے میں بظاہر فضول سمجھی جانے والی یہ سرگرمی بھی کوئی کردار ادا کرتی ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ارتقائی نقطہ نظر کے مطابق انسان ہمیشہ سماجی درجہ بندی سے واقف رہے ہیں۔
قدیم معاشروں میں قبیلے کے سردار یا کامیاب شکاری کے رویوں اور فیصلوں سے آگاہ رہنا بقا کے لیے ضروری تھا۔
کون کہاں سے کتنا شکار حاصل کرتا ہے؟ قبیلے کے سردار کی پسند ناپسند کیا ہے؟ ان کی قربت حاصل کرنے یا ان جیسا بننے کے لیے ان کی نجی زندگی کو قریب سے دیکھنا ضروری رہا۔
وہ ثقافتی رجحانات اور سماجی اصولوں پر اپنے دائرے میں اسی طرح اثر انداز ہوتے تھے، جیسے ایلون مسک، لیانارڈو ڈی کیپریو یا ہنی سنگھ۔
پھر مشاہدے کا ہماری زندگی میں فیصلہ کن کردار۔ اپنی رنگت سے لے کر صحت تک ہم ہر چیز میں دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں۔
ہمارا پسندیدہ اداکار یا کھلاڑی کیا کھاتا ہے؟ اس کے سونے اور جاگنے کا معمول کیا ہے؟
وہ کون سا شیمپو استعمال کرتا ہے تاکہ میں بھی اپنے بال ویسے ہی چمک دار اور ریشمی کر سکوں۔ اگر بال نہیں ہیں تو ان کے ہیئر سٹائل کی وگ ہی خرید لوں۔
ہم طویل عرصے تک یہ سب چیزیں مشاہدے کے ذریعے جانتے آئے ہیں۔ مشاہدہ آج بھی برقرار ہے، بس سوشل میڈیا اور زندگی کے بدلتے رجحانات میں اس کی شکل تبدیل ہو گئی۔
نجی زندگی کے بارے میں دوسروں کی پرائیویسی کا احترام اور اس کی حد بندی پر اصرار ایک اصولی موقف ہو سکتا ہے۔
میں اس میں آپ کے ساتھ ہوں، لیکن ارتقائی رویہ کسی بھی اصول اور ضابطے سے زیادہ طاقت ور ہے۔
جیسے ہی موقع ملا، تجسس مجھے وہیں لاکھڑا کرے گا جہاں آپ اصولی موقف کی بتی بجھا کر موبائل سکرین پہ نظریں گاڑھے بیٹھے ہوں گے۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔