افغانستان میں امریکہ کا چھوڑا اسلحہ نیا چیلنج بن گیا: نگران وزیراعظم

پاکستان کے نگران وزیراعظم نے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ لگنے سے ’ان کی لڑائی کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک نیا چیلنج ہے۔‘

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے دوران امریکی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو کہ اب خطے کے امن کے لیے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے۔

انہوں نے یہ بات پیر کی شام اسلام آباد میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی طرف سے چھوڑا گیا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے ان کی پاکستان کے خلاف لڑائی کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے والے فوجی سازوں سامان میں جدید خودکار اسلحے کے علاوہ رات کی تاریکی میں دیکھنے والی ’نائٹ ویژن عینک‘ بھی شامل ہیں۔

’افغان طالبان نے اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا جس کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے لگ بھگ دو دہائی تک افغانستان میں رہنے کے بعد وہاں سے فوری انخلا کا فیصلہ کیا اور اس دوران وہ بھاری مقدار میں اسلحہ چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔‘

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انخلا کے دوران عسکری ساز و سامان ذمہ دار ہاتھوں میں چھوڑ کر جانا چاہیے تھا کہ بعد ازاں اس کا احتساب بھی ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ لگنے سے ’ان کی لڑائی کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک نیا چیلنج ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ ’امریکہ کو مورد الزام قرار نہیں دے رہے۔‘ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مربوط تعاون کی ضرورت ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں حالیہ مہینوں میں تیزی آئی ہے اور پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان کی سرزمین پر موجود ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

تاہم افغان طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس عزم پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک خلاف شدت پسندی کے لیے استعمال نہ ہوا۔

کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی سے صرف اسی صورت بات ہو سکتی جب وہ ہتھیار پھینک دے اور تسلیم کرے کہ وہ غلط راستے پر تھے۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں اپنے گھروں، بچوں، مساجد اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ہیں۔‘

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر بھی کہہ چکے ہیں کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے والے عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے تک نشانہ بنایا جائے گا۔

کسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہیں رکھا جائے گا

جب نگران وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ کیا آئندہ عام انتخابات میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ’لیول پلینگ فیلڈ‘ یا مساوی مواقع ملیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف یا کسی اور جماعتوں کو اس عمل سے باہر رکھا جائے۔

رواں سال عمران خان کو پہلی مرتبہ گرفتار کرنے کے بعد ملک میں احتجاج دیکھا گیا اور اس دوران نو مئی میں مشتعل مظاہرین نے عسکری تنصیبات اور عمارتوں کو بھی نقصان پہنچایا جس کے بعد سے پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔

عمران خان کو بھی اگست میں توشہ خانہ کیس میں تین سال کی سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ بیرون ملک دوروں کے دوران پاکستانی رہنماؤں کو ملنے والے تحائف کو قومی خزانہ یعنی توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔

عمران خان پر الزام ہے کہ 2018 میں بطور وزیراعظم ان کو دورہ سعودی عرب کے دوران قیمتی گھڑی دی گئی تھی جو بعد میں انہوں نے قومی خزانہ سے خریدنے کے بعد بیچ دی تھی اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ظاہر کرنے کے الزامات پر انہیں سزا سنائی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گذشتہ ہفتے ان کی توشہ خانہ کیس میں تو سزا معطل کر دی لیکن عمران خان ایک اور مقدمے میں ان دنوں اٹک جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کسی جماعت کو سیاسی عمل میں شرکت سے نہیں روکا جا رہا ہے ’تمام جماعتوں کو مساوی مواقع فراہم ہوں گے۔‘

فوج حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کر رہی

حکومت کے معاملات میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت اور فوج کے ادارے کے درمیان مثالی ’ورکنگ ریلیشن شپ‘ ہے۔

انوار الحق نے کہا کہ انہیں نگران وزیراعظم بنے 15 دن ہوئے ہیں اور وہ اس دوران اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ فوج ہمیں صرف وہی مدد فراہم کرتی ہے جس کے لیے ان سے کہا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایک بھی ایسا واقع پیش نہیں آیا جہاں انہیں محسوس ہوا ہو کہ فوج حکومت کو ’ڈکٹیٹ‘ کر رہی ہو یا حکم دے رہی ہو اور ان کے بقول فوج نے ان حکومت کے معاملات بھی تھوڑی سی بھی مداخلت نہیں کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان