سن 1147 میں دوسری صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے پرتگال کا قلعہ، کاستیلو دوس مورس، مُور نسل کے حبشی عربوں سے چھینا۔ مقامی روایات ہیں کہ مسلمانوں کو چوروں اور شرابیوں کے ٹولے نے شکست دی جن میں برطانوی بھی شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ قلعے کی فصیلوں میں سونے اور سکوں کا خزانہ آج تک دفن ہے۔ یہ خزانہ پُرتگال کے بانی، شاہ الرائق کے بھیجے ہوئے ٹھگوں نے فصیلوں کی بنیادوں میں چھپایا تھا جب وہ قلعہ سر کرنے لیے سِنترے کی پہاڑیاں چڑھنے لگے تھے۔ میرا اندازہ ہے ایسا کوئی خزانہ موجود نہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ حسد اور پیسے کے گرد گھومتے رہے ہیں۔ شاہ الرائق سے اجازت نامہ لینے کے بعد صلیبی جنگجو لوٹ مار کرتے ہوئے لِزبن میں داخل ہوئے۔ پھر خوفزدہ مسلم آبادیوں میں ریپ اور قتلِ عام کرتے ہوئے پیش قدمی کی۔
یہ واحد فتح تھی جو عیسائیوں کو دوسری صلیبی جنگوں میں ملی۔ مشرقِ وسطیٰ میں اُن کے حالات بہت برے رہے۔ لِزبن کی فتح سے لے کر پندرہویں صدی میں مسلمانوں کو ملک بدر کرنے تک، خطے میں پُرتگال کے تنازعات وجہ فوجی نہیں بلکہ اقتصادی مفادات رہے۔ اُنہوں نے ہندوستانی تجارتی گزرگاہوں کو یمنی عربوں سے چھیننے کی کوششیں کیں۔
آسٹریلوی ماہرِ آثارِ قدیمہ اور مؤرخ وارِک بال نے اپنی کتاب "آؤٹ آف عریبیہ" میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب پُرتگال کے واسکو ڈے گاما نے ہندوستان "دریافت" کیا اور 20 مئی 1498 کو کالی کٹ پہنچا، تو وہاں اُسے دیکھتے ہی تیونس کے ایک عرب نے کہا کہ "تمہارا بیڑا غرق ہو، تم یہاں کیوں آئے ہو؟"
کوئی ساڑھے چار سو سال بعد پرتگال کے عیسائی قومپرست آمر حکمران، انتونی دی اولیویری سالوسار سے ہمیں یہ سننے کو ملا کہ پندرہویں اور سولہویں صدیوں میں، پُرتگال نے مسلمانوں کو ملک بدر کرکے "اسلام کی بجائے عیسائی" تہذیب کا دفاع کیا۔ یہ ایسا دعویٰ تھا جو شاید دورِ حاضر میں ہنگری کے وزیرِاعظم وِکٹر اوربان سے سننے کو ملے۔ سالوسار کا دعویٰ تاریخ کے متعلق سریحاً غلط بیانی تھی۔
لِزبن میں بیلم کے گرجا گھر جیرونیمو مانیسٹری میں واسکو ڈے گاما کا وسیع مقبرہ ہے۔ وہاں قرونِ وسطیٰ کے تجارتی بحری جہازوں کے دو نمونے رکھے گئے ہیں لیکن مسلمانوں کا کوئی حوالہ نہیں۔ البتہ ساتھ ہی سولہویں صدی کی خانقاہ کی راہداریاں عرب طرز کے محرابوں اور اینٹوں سے بھری ہوئی ہیں جن پر بنے نقش و نگار آج بھی الجزائر اور تیونس میں ملیں گے۔
ڈیپارٹمنٹ آف ہوم ٹروتھس، یعنی میری فِسکی فکر پر مبنی "اپنوں کو تلخ حقائق دکھانے والا آئینہ" مشرقِ وسطیٰ سے دکھائیں، تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ پُرتگال کے تشدد، نسل کُشی اور نسلی عصبیت کے عتاب کے شکار مشرقِ وسطیٰ نہیں افریقہ کے لوگ رہے۔ وہاں کی نوآبادیاتی جاگیروں – خصوصاً انگولا اور موزمبیق – میں بیسویں صدی کی جنگوں کے بعد پُرتگال میں 1975 میں مارسیلو کائتانو کی فسطائی حکومت گرانے میں مدد ملی۔ وہ سالوسار کے جانشین تھے۔
افریقیوں کے برعکس عربوں کو اجنبی اور تعلیم یافتہ سمجھا جاتا تھا جن کی ثقافت کے آثار کو پُرتگال کے شہروں کی گلیوں سے کبھی نہیں مٹایا گیا۔
کائتانو کی آمریت کا شکار ہونے والے قیدیوں کا یادگاری عجائب گھر لِزبن میں مُوری دور کی جس عمارت میں بنایا گیا ہے، اُسے "الجُوبی" کہتے ہیں۔ عربی میں اِس کا مطلب ہے "کھالے والی گلی"۔ الجوبی کا لفظ قید خانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سالوسار کے دور میں یہ عمارت قید خانہ ہی تھی۔
حالاتِ حاضرہ کو مسلم اور یورپی ماضی کے ساتھ جوڑنے کے لیے لِزبن کے کالوستے گُل بینکیان عجائب گھر سے بہتر منظر کشی کہیں نہیں کی گئی۔گُل بینکیان اپنے دور کا امیر ترین آرمینیائی عیسائی تھا۔
تیل کا یہ تاجر خیراتی کاموں کی وجہ سے بھی جانا جاتا تھا۔ اِس قدر رحمدل تھا کہ اُس کے خیراتی ادارے نے 1915 کے بعد آرمینیائی عیسائیوں اور اُنہی کا قتلِ عام کرنے والے ترک مسلمانوں کے درمیان شدید تلخیوں کو کم کرنے کی کوششیں کیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لِزبن میں دستیاب گُل بینکیان کی مختصر سوانح عمری میں آرمینیائی عیسائیوں کے قتلِ عام کو محض "دردناک واقعات" کہا گیا ہے۔
عجائب گھر میں مسلم یا عرب فن پارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شامی مملوکوں کی مسجد کا ایک چراغ اور ایک آرمینیائی انجیل پڑے ہیں۔ ایک نئی نمائش اُن نباتاتی علوم کا احاطہ کرتی ہے جن کا تبادلہ شاہ جہاں کی مغل سلطنت اور یورپیوں میں ہوا۔ مسلم کتب میں ایک شاندار مسودہ شامل جو چار سو سال پہلے سولہویں صدی کے ایران سے لایا گیا ہے۔ یہ مسودہ حافظ کا ہے جو چودہویں صدی کے صفوی دور کے عالم اور اور شاعر تھے۔ جو صفحہ کھول کر نمائش کے لیے رکھا گیا ہے اس کی خوش نویس عبارت حافظ نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہے۔ افسوس کہ اِس عبارت کا ترجمہ پیش نہیں کیا گیا۔ یعنی ادبی مسودے کی فن پارے کے طور پر نمائش کی گئی ہے۔
ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں حافظ کی اِس تحریر کا مفہوم ہے کہ "خوش قسمتی سے اگر مجھے اپنے محبوب کے قدموں کی خاک مل جائے، تو میں اُس سے اپنی آنکھوں پر لکیر کھینچ لوں۔ اگر اُس کا پروانہ شمع لے کر میری روح کی تلاش کو نکلے، تو میں اُسی لمحے اپنی روح نکال دوں۔۔۔۔۔ موت کے بعد آندھی بھی میری خاک کو تیرے در سے نہ اُڑا سکے"۔
اِس تحریر کی عاجزی فرناندو پِسووا کے شعروں میں بھی جھلکتی ہے۔ پِسووا بیسویں صدی کے عمدہ ترین پُرتگالی شاعر تھے۔ اُن کے کلام کے بارے میں لِزبن میں ایک مسلم سیاح نے مجھے کہا کہ یہ گیارہویں صدی کے عالم عمر خیام کی شاعری سے ملتا ہے۔ خیام کی رباعیات کا انگریزی ترجمہ ایڈورڈ فِٹزگیرالڈ نے کیا۔
پِسووا روانی سے انگریزی بولتے تھے۔ اِسی لیے یہ جان کر حیرت نہیں ہو گی کہ جب وہ فِٹزگیرالڈ کی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے تو اپنے مسودے کے سرِورق پر ہی رباعیات کا مفہوم لکھتے رہے۔ اُن کی سوچ پر عرب فلسفیوں کا غلبہ رہا جن میں گیارہویں صدی کے عرب اُندلسی شاعر المتعمد بھی شامل تھے۔ پِسووا نے قرونِ وسطیٰ میں آئیبیرین خطے سے عربوں کی ملک بدری کی مزمت کی تھی۔
اطالوی عالم فابریزیو بوسکالیا اور برازیلوی محقق مارشا فئتوزا کی تحقیق کے مطابق پِسووا عربوں کی وکالت اِن الفاظ کرتے ہیں۔
"ہماری عظیم (پُرتگالی) عرب روایت رواداری اور آزاد تہذیب پر مبنی ہے۔ اِس انداز میں ہے کہ ہم یورپ میں عرب روح کے محافظ ہیں اور یہی ہماری انفرادی خوبی ہے۔ آؤ اس شکست کا بدلہ لیں جو ہمارے عرب آباء و اجداد کو شمال سے آنے والوں نے دی۔ آؤ اس جرم کا کفارہ ادا کریں جب ہم نے عربوں کو خطے سے نکال دیا جنہوں نے اِسے مہذب بنایا تھا"۔
شاید اسی لیے اچنبے کی بات نہیں کہ کوئی دو سال پہلے پُرتگال کے وزیرِاعظم نے کہا کہ اُن کا ملک دس ہزار شامی مہاجروں کو قبول کرے گا۔یہ تعداد یورپی یونین میں پُرتگال کے کوٹے سے دُگنی تھی۔ اِس جذبے کا موازنہ وسطی اور مشرقی یورپ میں ہماری عیسائی "تہذیب" کے "محافظ" کہلانے والے ملکوں سے کرکے دیکھیں۔