اسلام آباد: نواز شریف کی حفاظتی ضمانت میں 26 اکتوبر تک توسیع

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے نیب کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف 24 اکتوبر 2023 کو احتساب عدالت میں پیشی کے لیے آتے ہوئے (عامر قریشی/ اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ضمانت بحال کرنے کی درخواستوں پر نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے نواز شریف کی حفاظتی ضمانت میں 26 اکتوبر تک توسیع کر دی ہے۔

اب دلائل کے لیے کیس کی مزید سماعت جمعرات کو ہو گی۔

دوسری جانب احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے منگل کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔ 

توشہ خانہ کیس میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری شریک ملزم ہیں۔

 العزیزیہ ریفرنس میں عدالتی حکم کے مطابق پنجاب حکومت نے سرکولیشن کے ذریعے سزا معطلی کی منظوری دی ہے۔ 

عامر میر کے مطابق ’نگران کابینہ نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سزا معطل کی، کرمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت نواز شریف کی سزا معطل کی گئی ہے۔‘

جون 2021 میں بارہا نوٹسز کے باوجود عدم پیشی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی پانامہ ریفرنسز میں اپیلیں خارج کر دیں جس کے بعد ان کی سزائیں بحال ہو گئی تھیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ نے 24 اکتوبر کو کیس کی سماعت کی۔ 

اعظم نذیر تارڑ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’آسان الفاظ میں یہ اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں ہیں۔‘

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’ابھی ہم نے اس پر نوٹس جاری کر کے نیب کو سننا ہے۔ اپیلوں کی بحالی روٹین کا معاملہ نہیں، آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ آپ عدالت سے غیر حاضر کیوں رہے؟‘

اس پر اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ’نواز شریف جان بوجھ کر غیر حاضر نہیں رہے، نواز شریف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے، ہم عدالت میں میڈیکل رپورٹس پیش کرتے رہے ہیں۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں کیا ہوا سب کے سامنے ہے، ایک پہاڑ کھودا گیا اور اس میں سے کیا نکلا؟‘

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا تھا اور دوسری عدالت چلے گئے، نواز شریف کی حراست اس عدالت کے اندر تھی آپ دوسری عدالت گئے؟ اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ’دوسری عدالت سے ریلیف سے متعلق ہم نے اس عدالت کو آگاہ کیا تھا۔‘

اعظم نذیر تارڑ نے نواز شریف کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے، ہمارے حفاظتی ضمانت کے آرڈر میں کچھ روز کی توسیع کر دیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک انفارمیشن بتانی ہے، احتساب عدالت نے اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے، وارنٹ بھی ختم ہو گئے۔‘

کیا یہ وہی نیب ہے؟ جسٹس میاں گل حسن

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر جنرل سے پوچھا کہ اپیلیں بحال کرنے پر ان کا کیا موقف ہے؟ نیب پراسکیوٹر جنرل  نے عدالت کو بتایا کہ 'اگر حفاظتی ضمانت میں توسیع کردی جائے تو ہمیں اعتراض نہیں۔' اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ 'میں ان کیسز میں پانچ سال بعد واپس آیا ہوں، پانچ سال بعد سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیا یہ وہی نیب ہے؟'

جسٹس میاں گل حسن نے مزید کہا کہ ’آپ کو پتہ ہے عام عوام کا کتنا وقت اس کیس میں لگا ؟ بڑا آسان ہے کہ عدالت میں الزام لگایا جائے۔ ہمارا ٹائم اور کیوں ضائع کرتے ہیں، کیا اب نیب یہ کہے گی کہ کرپٹ پریکٹسز کا الزام برقرار ہے اور ان کو چھوڑ دیں۔‘

اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'نواز شریف نے اس تمام وقت کے دوران بہت سی مشکلات دیکھی ہیں، نواز شریف کی والدہ اور اہلیہ کی وفات اس دوران ہوئی، نواز شریف پر بہت سے الزامات لگائے گئے، نواز شریف کو عدلیہ اور آئین سرخرو کریں گے۔'

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ تمام الزام عدالتوں پر ڈال دیا جاتا ہے، نیب کا کنڈکٹ تو دیکھیں، نیب جب کسی چیز کی مخالفت ہی نہیں کر رہا تو پھر اپیلیں کیسی؟ چیئرمین نیب سے ہدایات لے لیں کہ عدالت کا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ ہمیں واضح بتا دیں تاکہ ہم فیصلہ دے کر کوئی اور کام کریں،اس پر چیف جسٹس نے بھی کہا کہ 'نیب اگر سمجھتا ہے کہ ریفرنسز غلط دائر ہوئے تو وہ واپس لے لے، اگر ریفرنسز واپس لینے ہوں تو کیسے لئے جا سکتے ہیں؟ پھر پوچھ رہے ہیں کیا نیب نواز شریف کو گرفتار کرنا چاہتا ہے؟ 

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو جواب دیا کہ ’نہیں، ہم گرفتار نہیں کرنا چاہتے۔‘

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا نیب کو نواز شریف کی حفاظتی ضمانت میں توسیع پر کوئی اعتراض ہے؟' پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ 'نہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘

درخواستوں کا متن

پیر کے روز سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دو نیب ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ اپیلوں کو بحال کر کے میرٹ پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے۔

گذشتہ روز امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف کی جانب سے اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں دائر کیں اور ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی استدعا کی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’درخواست گزار بیماری کی وجہ سے بیرون ملک علاج کے لیے گئے تھے وہ اگرچہ مکمل صحت یاب نہیں ہیں لیکن ملک کی معاشی صورت حال کی وجہ سے انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

جبکہ 19 اکتوبر کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ’عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے، کیسز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں عدالت تک پہنچنے کے لیے گرفتاری سے روکا جائے۔‘

عدالت نے 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔ جبکہ 23 اکتوبر کو دائر ہونے والی درخواستیں بھی 24 اکتوبر کے لیے چیف جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ میں مقرر کی گئیں۔ 

نواز شریف ایون فیلڈ، العزیزیہ ریفرنسز کا سیاق و سباق

احتساب عدالت نے 2018 میں نواز شریف کو دس سال قید اور 80لاکھ پاؤنڈ کی سزا سنائی تھی۔ العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دس سال کیلئے عوامی عہدے کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا تھا۔

العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیسز میں سزاؤں کے بعد نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سال 2019 میں صحت کی بنیاد پر نواز شریف کو حکومت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہونے پر چار ہفتوں کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔ حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ای ایل سے نکالا جس کے بعد نواز شریف اکتوبر 2019 میں نواز شریف علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے۔ چار سال گزرنے کے نواز شریف وطن واپس نہ آئے۔ عدالت نے عدم حاضری پر  پندرہ ستمبر 2020 کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکالے۔ پیش نہ ہونے پر عدالت نے سات اکتوبر کو نواز شریف کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا حکم دیا اور اشتہاری قرار دے دیا گیا۔

سال 2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عدم حاضری پرایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ 'فیئر ٹرائل کے بعد نواز شریف کو سزا ملی جبکہ وہ ضمانت پر لندن جا کر مفرور ہو گئے، بغیر کسی جواز غیر حاضر رہے،اپیلیں خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، حق سماعت کھو چکے ہیں اس لیے کسی ریلیف کے مستحق نہیں۔ گرفتاری دیں یا پکڑے جائیں تو اپیلیں دوبارہ دائر کر سکتے ہیں۔‘

احتساب عدالت میں نواز شریف کی ضمانت منظور، سماعت 20 نومبر تک ملتوی

دوسری جانب احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے منگل کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی۔

توشہ خانہ کیس میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری شریک ملزم ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق کیس کی سماعت سے قبل ہی سابق صدر آصف علی زرداری کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ آج توشہ خانہ ریفرنس کیس کی سماعت میں بیماری کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکیں گے، لہذا حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جائے گی۔

اس دوران سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی رہنما یوسف رضا گیلانی حاضری لگا کر احتساب عدالت سے روانہ ہو گئے۔

نواز شریف کے احتساب عدالت پہنچنے پر مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری نواز شریف کے ضمانتی مقرر ہوئے۔ وہ احتساب عدالت کے کمرہ عدالت میں پہنچے اور  جج محمد بشیر کے روبرو پیش ہوئے۔

اس دوران کارکنان، خواتین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان دھکم پیل بھی ہوئی اور متعدد خواتین بھی نیچے گر گئیں۔

اسی عدالت کے جج نے نواز شریف کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی تھی۔

نواز شریف کے وکلا کی جانب سے دائر تین درخواستوں پر سماعت ہونی تھی، جس میں ان کی ضبط کی گئی جائیداد کو ریلیز کروانے، ان کی جانب سے پلیڈر (نمائندہ) مقرر کرنے اور مچلکے جمع کروانے کی درخواست شامل ہیں۔

کمرہ عدالت میں پہنچنے کے بعد نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کے ہمراہ کرسی پر بیٹھ گئے، جس کے بعد کیس کی سماعت شروع ہوئی۔

جج محمد بشیر نے کہا کہ ابھی دستخط کروا لیں اور نواز شریف کو روسٹرم پر بلا لیں، جس کے بعد انہیں حاضری کے لیے بلایا گیا۔

 بعد ازاں نواز شریف نے احتساب عدالت میں سرنڈر کر دیا۔

اس دوران کمرہ عدالت میں شدید دھکم پیل اور لوگوں کے ہجوم کے باعث جج محمد بشیر نے نواز شریف کو کمرہ عدالت سے واپس جانے کی ہدایت کر دی اور وکلا کو اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’نوازشریف کو لے جائیں۔‘

اس دوران سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’باہر سڑکیں بند ہیں، عوام ہی عوام ہے۔‘

جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ویسے بہت مزا آتا ہے۔ جب کافی لوگ جمع ہوتے ہیں۔‘

جس پر وکیل صفائی قاضی مصباح نے کہا: ’مزا بھی آتا ہے جب لوگ جمع ہوں، لوگ کسی کے پیچھے اکٹھے نہیں ہوتے، جن پر انہیں اعتماد نہ ہو۔‘

جس پر جج نے جواب دیا: ’بس اب بس، اب آپ سیاسی بات کر رہے ہیں۔‘ اس جملے پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے کہا: ’نواز شریف نے سرینڈر کر دیا، ان کے وارنٹ مسترد کر دیں۔ وارنٹ مسترد ہوں گے تو ٹرائل آگے چلے گا۔‘

جس کے بعد عدالت نے نواز شریف کی 10 لاکھ روپے مچلکوں  کے عوض ضمانت منظور کر لی اور توشہ خانہ ریفرنس کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔

عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر نقول تقسیم کی جائیں گی۔ عدالت نے جائیداد ضبطگی کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 نومبر کو ہی جائیداد ضبطگی کی درخواست پر دلائل طلب کر لیے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق 19 اکتوبر 2023 کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ’عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے، وہ (نواز شریف) کیسز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، لہذا عدالت تک پہنچنے کے لیے گرفتاری سے روکا جائے۔‘

جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نواز شریف کو 24 اکتوبر 2023 تک کی حفاظتی ضمانت دے دی تاکہ وہ خود عدالت میں سرینڈر کر سکیں۔

21 اکتوبر 2023 کو نواز شریف کی اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے بعد مختصر قیام میں اپنی قانونی ٹیم سے ملاقات ہوئی تھی۔

وکلا نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزاؤں کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں تیار کر رکھی تھیں۔

نواز شریف نے سزاؤں کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواست پر دستخط کیے تھے، جبکہ نادرا کی ٹیم بھی ایئرپورٹ پر موجود تھی، جنہوں نے نواز شریف کے انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کی اور رسید وکلا کے حوالے کی تاکہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کرنے کے قانونی لوازمات مکمل ہو سکیں۔

العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل

دوسری جانب پنجاب کی نگران کابینہ نے نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کر دی ہے۔

پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پنجاب کابینہ نے کوڈ آف کرمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کے سیکشن 401 کے تحت آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے یہ معطلی کی ہے۔

عامر میر کا مزید کہنا تھا: ’جب بزدار حکومت نے 2019 میں میاں نواز شریف کو لندن بھیجا تھا تب بھی پنجاب کابینہ نے سیکشن 401 کے تحت نواز شریف کی سزا معطل کی تھی تاکہ وہ ملک سے باہر علاج کی غرض سے جا سکیں۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر 2019 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کو آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کیا تھا اور مزید مہلت کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

2019 میں میاں نواز شریف علاج کی غرض سے ملک سے باہر گئے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں فروری 2020 میں اس وقت کی پنجاب کابینہ نے العزیزیہ ریفرنس کی ضمانت میں توثیق نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کے کیسز کس مرحلے پہ ہیں؟

ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اشتہاری مجرم ہیں۔

نیب کی سزاؤں کے خلاف ان کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھیں اور عدم پیشی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں اشتہاری قرار دے کر کیس بند کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ’جب نواز شریف وطن واپس آئیں گے اور ایک درخواست دائر کریں گے تو کیس دوبارہ سُنا جائے گا۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی حد تک نیب سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعتیں کیں اور نیب کے ناکافی شواہد پر انہیں بری کر دیا تھا۔

قانونی طور پر اسی کیس میں اب نواز شریف کی ضمانت کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے۔

نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ، العزیزیہ ریفرنسز کا سیاق و سباق

احتساب عدالت نے 2018 میں نواز شریف کو 10 سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 10 سال کے لیے عوامی عہدے کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا تھا۔

العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیسز میں سزاؤں کے بعد نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سال 2019 میں صحت کی بنیاد پر نواز شریف کو حکومت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہونے پر چار ہفتوں کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔

حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ای ایل سے نکالا، جس کے بعد نواز شریف اکتوبر 2019 میں علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے۔

چار سال گزرنے کے بعد نواز شریف وطن واپس نہ آئے۔ عدالت نے عدم حاضری پر 15 ستمبر 2020 کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

پیش نہ ہونے پر عدالت نے سات اکتوبر 2023 کو نواز شریف کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا حکم دیا اور انہیں اشتہاری قرار دے دیا گیا۔

2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عدم حاضری پر ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ ’شفاف ٹرائل کے بعد نواز شریف کو سزا ملی جبکہ وہ ضمانت پر لندن جا کر مفرور ہو گئے، بغیر کسی جواز غیر حاضر رہے، اپیلیں خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، وہ حق سماعت کھو چکے ہیں، اس لیے کسی ریلیف کے مستحق نہیں۔ گرفتاری دیں یا پکڑے جائیں تو اپیلیں دوبارہ دائر کر سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان