نواز شریف کی چوتھی اہم ترین وطن واپسی کی راہیں ہموار ہو گئی ہیں۔ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے راہداری ضمانت مل چکی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہفتے کو مینارِ پاکستان پر جلسہ کر کے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں اپنی جماعت کی قیادت کریں گے۔
یہ نواز شریف کی اپنی نوعیت کی چوتھی واپسی ہو گی جسے اتنے بڑے پیمانے پر میڈیا کوریج ملی ہے۔
پہلی واپسی
1999 میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف جیل بھیج دیے گئے تھے، تاہم سعودی حکومت کی ثالثی سے ایک ڈیل کے تحت وہ 2000 میں اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ سعودی عرب منتقل ہو گئے اور تقریباً سات سال وہیں گزارے۔
23 اگست 2007 کو پاکستانی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ نواز شریف واپس پاکستان آ سکتے ہیں، جس کے بعد انہوں نے دس ستمبر کو پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں براستہ لندن اسلام آباد پہنچنا تھا۔
اس واپسی کو ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر بڑے پیمانے پر تشہیر ملی۔ نواز شریف کے مداحوں اور سیاسی کارکنوں نے ہوائی اڈے پہنچنے کی کوشش کی مگر انہیں سکیورٹی فورسز نے راستے ہی میں گھیر لیا۔ اس وقت میڈیا پر تقریباً چار ہزار افراد کی حراست کی خبریں آئی تھیں۔
اس ڈرامے کا اس وقت اینٹی کلائمیکس ہو گیا جب پرویز مشرف کی حکومت نے ہوائی اڈے ہی پر سابق وزیرِ اعظم کو حراست میں لے لیا اور تقریباً چار گھنٹے بعد ایئر فورس کے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے واپس سعودی عرب بھجوا دیا۔
انسانی حقوق کے اداروں نے نواز شریف کی جبری ملک بدری کی مذمت کی تھی۔
دوسری واپسی
اس دوران پسِ پردہ بات مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا، اور نواز شریف تین ماہ بعد یعنی 25 نومبر 2007 کو ایک بار پھر پاکستان آئے۔ اب کے اسلام آباد نہیں، بلکہ اپنے سیاسی گڑھ لاہور۔
اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے فروری 2008 میں انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کیا تھا، اور نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کی قیادت کرنا تھی (یہ انتخابات جنوری 2008 میں ہونا تھے لیکن 27 دسمبر 2007 کو بےنظیر بھٹو کے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل کے بعد انتخابات کو فروری تک موخر کر دیا گیا)۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب کے نواز شریف کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ لاہور کے ہوائی اڈے پر مسلم لیگ ن کے ہزاروں پرجوش حامی ہوائی اڈے پر موجود تھے جو ’گو مشرف گو‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ نواز شریف سفید قمیص اور سیاہ واسکٹ میں ملبوس تھے۔ شہباز شریف ان کے شانہ بشانہ تھے۔
حکومت نے لاہور کے ہوائی اڈے پر بھاری سکیورٹی کا انتظام کیا تھا مگر ایک ہزار کے لگ بھگ کارکن پولیس کی جانب سے نصب رکاوٹیں عبور کر کے نواز شریف کے قریب پہنچ گئے اور انہیں کندھوں پر اٹھا لیا۔ نواز شریف نے ایک بلٹ پروف کار میں اپنے کارکنوں کے جلو میں داتا دربار پر حاضری دی۔
اگلے ہی ماہ پاکستانی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہوا جب بےنظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ نواز شریف کی واپسی نے سیاسی مومینٹم پیدا کر دیا تھا اور انتخابات میں مسلم لیگ ن کے جیتنے کی پیش گوئی کی جا رہی تھی مگر بےنظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سے پیپلز پارٹی 116 نشستیں حاصل کر کے سب سے بڑی جماعت بن پر ابھری۔
مسلم لیگ ن نے 88 نشستوں پر اکتفا کیا، جب کہ جنرل مشرف کی اتحادی اور ان کی ’بی ٹیم‘ کہلانے والی ق لیگ 54 نشستیں حاصل کر پائی۔
نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سال حزبِ اختلاف میں گزارے، مگر پھر 2013 میں ہونے والے انتخابات میں وہ اپنی نشستوں کی تعداد میں تقریباً دگنا کا اضافہ کر کے بھاری اکثریت سے جیتنے میں کامیاب ہوئے اور تیسری بار ملک کے وزیرِ اعظم بن گئے۔
تیسری واپسی
ابھی نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ چار برس 53 دن ہی چلی تھی کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو انہیں سبکدوش کر دیا۔ 13 اپریل 2017 کو انہیں سیاست میں حصہ لینے یا کوئی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے تاعمر نااہل قرار دے دیا۔
نواز شریف اس کے بعد جلد ہی لندن چلے گئے جہاں ان کی اہلیہ کلثوم نواز کا کینسر کا علاج چل رہا تھا۔
پانچ جولائی 2018 میں ایک عدالت نے نواز شریف کو بدعنوانی کے الزام میں قید کی سزا سنا دی۔ ایک طرف سزا، دوسری جانب اہلیہ کی بیماری، مگر اس کے باوجود 13 جولائی کو نواز شریف نے لندن سے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔
اس موقعے پر مریم نواز بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ اس واپسی کو بھی میڈیا نے بھرپور طریقے سے کور کیا، اور نواز شریف کے جہاز میں درجنوں صحافیوں نے ان کے ساتھ سفر کیا۔
ایک بار پھر سکیورٹی فورسز کی بھاری تعداد نے نواز شریف کے طیارے کو حصار میں لے لیا اور انہیں پنجاب حکومت کے جہاز میں سوار کروا کے اسلام آباد کی اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔
اسی ماہ ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کے مرکزی حریف عمران خان انتخابات جیت گئے۔
19 نومبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو طبی بنیادوں سے لندن جانے کی اجازت دے دی اور وہ اس کے بعد سے وہیں مقیم ہیں۔
چوتھی واپسی
اب نواز شریف تقریباً چار سال بعد واپس آ رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جب بھی آئے ان کے سامنے ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج موجود تھا۔
پہلی واپسی اس لیے انتہائی اہم تھی کہ وہ طویل جلاوطنی کے بعد ملک واپس آ رہے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ان کے مقابلے پر پرویز مشرف کی حکومت ہے جن کے ساتھ ان کی بےحد تلخ معرکہ آرائی جاری تھی۔
دوسری بار وہ انتخابات میں حصہ لینے آ رہے تھے، لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو گا، کیا ایک بار پھر انہیں جلاوطن کر دیا جائے گا، یا آ کر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل پائے گی؟
تیسری واپسی کا فیصلہ بھی اس لحاظ سے قابلِ ذکر ہے کہ نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو لندن میں شدید بیماری کی حالت میں چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ہمراہ پاکستان آ رہے تھے (کلثوم ان کی واپسی کے دو ماہ بعد چل بسیں)، اور انہیں معلوم تھا کہ انہیں سیدھا جیل بھیج دیا جائے گا۔
اب وہ 21 اکتوبر کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ اکثر سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ وہ کسی ڈیل کے تحت آ رہے ہیں۔
چند روز قبل چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کراچی میں نواز شریف کی آمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص کی واپسی کے لیے انتخابات، جمہوریت اور آئین کو روکا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی ہی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ وہ کسی ڈیل کے تحت آ رہے ہیں۔‘
یہی نقطۂ نظر تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام ف کا بھی ہے کہ شاید نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل ہے۔
اس صورتِ حال میں نواز شریف کی مینارِ پاکستان میں تقریر بےحد اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے اور اسی سے پتہ چلے گا کہ وہ اور ان کی جماعت اگلے انتخابات کے لیے کیا بیانیہ تشکیل دیتی ہے، اور ان کی چوتھی واپسی پاکستانی سیاست پر کتنے گہرے اثرات چھوڑ پاتی ہے۔