آسٹریلیا کے دورے پر روانگی سے قبل پاکستان کرکٹ ٹیم کے روایتی گروپ فوٹو شوٹ میں سب سے اہم بات یہ نظر آئی کہ کپتان کے لیے مخصوص درمیانی نشست پر شان مسعود براجمان تھے۔
جی ہاں وہی شان مسعود جو اسی سال نیوزی لینڈ کےخلاف ون ڈے ہوم سیریز میں نائب کپتان بنائے جانے کے باوجود گروپ فوٹو میں کپتان بابراعظم کے برابر بیٹھنے کی بجائے ایک کونے میں بٹھا دیے گئے تھے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
دراصل پاکستان کی کرکٹ کا یہی انداز ہے کہ کسی بات کو حرف آخر نہ سمجھا جائے کیونکہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔
آسٹریلیا کا دورہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے ہمیشہ انتہائی سخت چیلنج کا حامل رہا ہے، جہاں پاکستان ٹیم کے پہنچنے سے قبل ہی اس کی شکست کو یقینی سمجھ لیا جاتا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلی پانچ ٹیسٹ سیریز پاکستانی ٹیم کے وائٹ واش پر ختم ہو چکی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کے سابق کپتان این چیپل نے 2017 کی ٹیسٹ سیریز میں تین - صفر کی شکست کے بعد طنزیہ طور پر کہا تھا کہ کرکٹ آسٹریلیا کو چاہیے کہ وہ پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ سیریز کے لیے نہ بلایا کرے تاوقتیکہ پاکستان ٹیم کی کارکردگی اس سطح پر آجائے کہ وہ حریف ٹیم کا مقابلہ کرسکے۔
ناکامیوں کے دراز ہوتے ہوئے اس سلسلے میں پاکستان ٹیم کے موجودہ دورے کے بارے میں بھی یہی رائے قائم کر لی گئی ہے کہ یہ ٹیم آسٹریلیا میں جیت نہیں سکتی۔
کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا اس ٹیم میں اتنی سکت نہیں کہ وہ آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کو اسی کے گھر میں چیلنج دے سکے اور کامیابی حاصل کرسکے؟
پاکستان ٹیم کا یہ دورہ ورلڈ کپ کے بعد ہو رہا ہے جس میں ایک طرف تو آسٹریلیا نے اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا۔
گویا اس وقت آسٹریلیا نہ صرف وائٹ بال یعنی ون ڈے کرکٹ کا عالمی چیمپیئن ہے بلکہ ریڈ بال میں بھی وہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فاتح ہے۔
دوسری جانب پاکستان ٹیم ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہے۔
مکی آرتھر ٹیم ڈائریکٹر نہیں رہے اور کپتان بابراعظم کو بھی وائٹ بال کی کپتانی سے فارغ کر دیا گیا۔
ان سے کہا گیا کہ وہ ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی جاری رکھیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور ذکا اشرف سے ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ کے ذریعے تینوں فارمیٹس میں کپتانی نہ کرنے کا اعلان کرڈالا جس کے بعد قرعہ فال شان مسعود کے نام نکلا۔
شان کے لیے بیک وقت کئی چیلنجز ہیں۔ ایک جانب ان پر خود اپنی کارکردگی کا زبردست بوجھ ہے کیونکہ اگست 2020 میں انگلینڈ کے خلاف اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ کی سنچری کے بعد سے 17 ٹیسٹ اننگز میں وہ صرف ایک مرتبہ نصف سنچری تک پہنچ پائے ہیں۔
دوسری جانب بحیثیت کپتان آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کے سامنے اپنی ٹیم کو بھی جرات مندی اور ذہانت سے لڑانا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔
اگر ہم پاکستان ٹیم کی بیٹنگ پر نظر ڈالیں تو آسٹریلوی کنڈیشنز اس کے لیے سخت چیلنجنگ ہیں۔
عبداللہ شفیق خود کو ایک قابل اعتماد اوپنر کے طور پر پیش کرچکے ہیں جنہوں نے اب تک چار سنچریاں اور چار نصف سنچریاں بنا لی ہیں لیکن وہ اب تک پاکستان سے باہر صرف بنگلہ دیش اور سری لنکا کی سلو اور سپن وکٹوں پر کھیلے ہیں۔
انہوں نے پیٹ کمنز، جوش ہیزل ووڈ اور مچل سٹارک کو کھیلتے ہوئے اگرچہ 136 ناٹ آؤٹ، 96 اور81 کی تین اہم اننگز کھیلی ہیں لیکن یہ سیریز پاکستان میں کھیلی گئی تھی۔
دیکھنا ہوگا کہ آسٹریلوی باؤنسی وکٹوں پر وہ کس طرح کی کارکردگی دکھاتے ہیں۔
امام الحق نے اگرچہ آسٹریلیا کے خلاف دو سنچریاں بنارکھی ہیں لیکن وہ بھی پاکستان میں سکور کی ہیں، آسٹریلیا میں وہ صرف ایک ٹیسٹ کھیلے ہیں جس میں وہ صرف دو رنز بنانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔
سعود شکیل کا بھی عبداللہ شفیق کی طرح یہ آسٹریلیا کا پہلا دورہ ہے۔ وہ درست تکنیک کے ساتھ بیٹنگ کرنے والے بیٹسمین کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جس کا اندازہ اب تک کی ان کی صرف 13 اننگز میں دو سنچریوں اور چھ نصف سنچریوں کی مستقل مزاج کارکردگی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
لیکن پاکستان سے باہر وہ اب تک صرف سری لنکا میں کھیلے ہیں اور آسٹریلوی کنڈیشنز ان کے لیے بھی کسی سخت امتحان سے کم نہ ہوں گی۔
پاکستانی بیٹنگ لائن میں شامل سلمان علی آغا کے لیے بھی صورت حال کم و بیش یہی ہے۔
انہوں نے بھی اپنے تمام نو ٹیسٹ پاکستان اور سری لنکا میں کھیل رکھے ہیں جن میں ان کی کارکردگی اچھی رہی لیکن پرتھ۔، میلبرن اور سڈنی میں انہیں ایک ورلڈ کلاس بولنگ اٹیک کے سامنے مشکل کنڈیشنز ملیں گی۔
وکٹ کیپر سرفراز احمد کے لیے بھی یہ دورہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آسٹریلیا ان کے لیے نئی جگہ نہیں۔
انہوں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز آسٹریلیا میں ہی کیا تھا اور پھر2016 کے دورے میں انہوں نے برسبین میں 59 ناٹ آؤٹ اور سڈنی میں 72 ناٹ آؤٹ کی دو اچھی اننگز کھیلیں۔
سرفراز نے اسی سال نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کم بیک کرتے ہوئے شاندار پرفارمنس دی اور چاروں اننگز میں ایک سنچری اور تین نصف سنچریاں بنائیں۔
سری لنکا میں دو اننگز اچھی نہ کھیلنے کے بعد انہیں ریٹائر ہرٹ ہونا پڑا تھا لہٰذا وہ آسٹریلیا میں اچھی کارکردگی دکھانے کے خواہاں ہوں گے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان کی خراب کارکردگی محمد رضوان کے لیے واپسی کا راستہ بنا سکتی ہے۔
پاکستان ٹیم ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بابر اعظم پر مکمل طور پر انحصار کرے گی۔ بابراعظم آسٹریلیا کے دو ٹورز کر چکے ہیں۔
2016 میں وہ کامیاب نہیں رہے تھے لیکن 2019 میں انہوں نے برسبین میں 104 اور ایڈیلیڈ میں97 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔
کپتانی سے ہٹنے کے بعد اب وہ مکمل طور پر اپنی بیٹنگ پر توجہ دے سکیں گے اور یہ بات پاکستان ٹیم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔
آسٹریلیا کے دورے کی اعلان کردہ ٹیم کے بارے میں سب سے زیادہ بات اس کے بولنگ اٹیک کے بارے میں ہورہی ہے اور ایک عام رائے یہ ہے کہ یہ ایک ناتجربہ کار اور کمزور بولنگ اٹیک ہے خاص کر پیس اٹیک۔
کیا یہ بات درست ہے؟ پاکستانی پیس اٹیک شاہین شاہ آفریدی، حسن علی، میرحمزہ، عامر جمال، فہیم اشرف اور خرم شہزاد پر مشتمل ہے جبکہ سپن بولنگ کا شعبہ ابرار احمد اور نعمان علی نے سنبھالا ہوا ہے۔
اگر پیس اٹیک کو دیکھیں تو شاہین اور حسن دو سب سے زیادہ تجربہ کار بولر ہیں جن کے نام کے آگے بالترتیب 105 اور 78 وکٹیں درج ہیں۔
فہیم ابھی تک اپنی کارکردگی سے انصاف نہیں کر پائے۔ میر حمزہ اور خرم ڈومیسٹک کی کارکردگی پر ٹیم میں آئے ہیں۔
میر حمزہ تین ٹیسٹ میچز کسی کامیابی کے بغیر کھیل چکے ہیں۔ عامر کے پاس ٹیسٹ کرکٹ کا کوئی تجربہ نہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا دھچکا نسیم شاہ کا ان فٹ ہوجانا ہے ان کی کمی ورلڈ کپ میں بھی محسوس ہوئی اور آسٹریلیا میں بھی یقینی طور پر ہوگی۔
ٹیم کے سلیکشن کے موقعے پر ایک تنازع بھی سامنے آیا جس کا تعلق فاسٹ بولر حارث رؤف سے تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دلچسپ بات یہ ہے حارث نے واحد ٹیسٹ میچ گذشتہ سال انگلینڈ کے خلاف کھیلا تھا جس میں وہ فیلڈنگ کے دوران ان فٹ ہو گئے تھے۔
آسٹریلیا کے دورے سے قبل چیف سلیکٹر وہاب ریاض کا کہنا تھا کہ حارث نے آسٹریلیا کے دورے کے لیے رضا مندی ظاہر کردی تھی اور بعد میں انکار کردیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ بگ بیش میں کھیلنے کے لیے ان کا این او سی بھی تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ وہاب چیف سلیکٹر بننے کے بعد یہ کہہ رہے ہیں کہ سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کرکٹر کسی بھی فارمیٹ میں کھیلنے کا پابند ہے۔
تاہم چار سال قبل جب پاکستانی ٹیم آسٹریلیا جا رہی تھی تو خود انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا تھا جس پر انہیں اس وقت کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقاریونس کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وہاب کے انکار کے بعد پاکستان کو اس دورے میں شاہین، نسیم شاہ، عمران خان، محمد موسیٰ اور محمد عباس پر انحصار کرنا پڑا تھا۔
نسیم اور موسیٰ نے اسی دورے میں اپنا ٹیسٹ کیریئر شروع کیا تھا۔ عمران خان اس دورے سے قبل صرف نو ٹیسٹ کھیلے تھے جبکہ اس دورے سے قبل شاہین کے کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں کی تعداد محض تین تھی۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو 2019 کی سیریز میں پاکستانی پیس اٹیک انتہائی ناتجربہ کار تھا جبکہ لیگ سپنر یاسر شاہ بھی بہت مہنگے اور غیر مؤثر ثابت ہوئے تھے اور 100.50 کی بھاری اوسط سے صرف چار وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔
2004 کے دورے میں شعیب اختر، عبدالرزاق، محمد سمیع، رانا نوید الحسن، محمد خلیل اور دانش کنیریا کا بولنگ اٹیک بھی آسٹریلیا کو وائٹ واش نے نہ روک سکا تھا۔
اسی طرح 2010 میں بھی محمد آصف، محمد عامر، محمد سمیع، عمرگل، دانش کنیریا اور سعید اجمل کی بولنگ شین واٹسن، مائیکل ہسی، مائیکل کلارک، رکی پونٹنگ اور سائمن کیٹچ کو بھاری سکور کرنے سے نہ روک سکی تھی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔