انڈین سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے پیر کو جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 پر فیصلہ سنایا اور کشمیری درخواست گزاروں نے عدالت کے لان میں پہنچ کر اپنی بات کہنے کی کوشش کی تو انہیں بی جے پی حامی وکلا اور رہنماؤں نے برے القابات سے نوازا۔
ان میں ایک وکیل عرفان حفیظ لون ہیں، جو درخواست گزار ہیں اور کشمیر میں 370 کی بحالی کی درخواست لے کر عدالت عظمی پہنچے تھے۔
جیسے ہی انہوں نے ذرائع ابلاغ سے بات کرنی شروع کی ویسے ہیں انہیں ملک مخالف القاب سے نوازا گیا اور بھارت ماتا کی جے کے نعروں کے ساتھ دھکم پیل کی کوشش ہوئی۔
اسی دوران عرفان حفیظ لون کے خیالات کو دیش مخالف کہنا شروع کر دیا گیا۔ عرفان حفیظ نے بار بار اپنی وطن دوستی اور عدالت عظمی کے احترام کی دہائی دی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ گاندھی کا دیش ہے، میرے والد صاحب گولیوں کے شکار بنے ہیں، یہ ہمیں دیش دروہی کہیں گے، ابھی بھی وہاں افسپا قانون ہے، ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ ہے، بچے جیلوں میں ہیں، سنیے میری بات، اگر ہم پرامن طریقے سے بات کرتے ہیں تو کیا اس ملک میں ہمیں حق نہیں اپنی بات رکھنے کا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’واجپائی جی نے کہا انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت میں ہم کشمیر کو سلجھائیں گے۔ تین جنگیں کشمیر میں ہوئیں۔ کل ایک پولیس افسر مارا گیا۔ ہم چاہیں گے کہ گاندھی کے دیش میں پر امن طریقے سے 370 کو حاصل کر کے رہیں۔‘
انہوں نے اس افسردہ واقعہ پر کوئی تبصرہ کئے بغیر انڈیپنڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا اسی بات پر اصرار تھا کہ پانچ اگست کا فیصلہ ہے، اگر اسمبلی نہیں تھی، تو پارلیمنٹ آرٹیکل 370 نہیں ہٹا سکتی ہے۔ ریاست کو اگر مرکز کے زیر انتظام لانا تھا یا آرٹیکل 370 کو ہٹانا تھا تو جموں و کشمیر کی اسمبلی سے رائے لینی چاہئے تھی۔‘
وکیل عرفان حفیظ لون نے کہا کہ مایوسی کے باوجود ان کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
انہوں نے عدالت کے فیصلہ پر ردعمل کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’جمہوریت میں ہم پر کوئی رکاوٹ نہیں ہیں اپنی سیاسی حقوق کی بات کرنے کی۔ ہمارا (کشمیر) ان کے (بھارت) ساتھ ایک معاہدہ تھا، یہ فیصلہ اس معاہدہ کے خلاف ہے۔ اسی لیے ہمیں سیاسی لڑائی کے لیے پورے ملک میں جانا پڑے گا۔ ایک تحریک بنانی پڑے گی۔ جموں کشمیر کو متحد ہونا پڑے گا۔ اور سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اہل اقتدار سے بات کرنی پڑے گی کہ یہ ہمارے حقوق ہیں، اگر آپ دیں گے تو انصاف ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جموں کے رہائشی سنیل ڈمپل جو کہ اپنی ریاست کے لیے ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں، فیصلے سے ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اب یہ فیصلہ آگیا ہے تو ہم لوگوں میں جائیں گے۔ یہ لوگ یہی چاہتے تھے کہ 370 نہ جائے۔ قوم پسند اور ملک پسند لوگ تھے۔ انہیں 370 کے جانے کا افسوس ہوگا۔ لیکن سپریم کورٹ کی ہم عزت کرتے ہیں، جس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔‘
پیر کے روز انڈین سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والے عرضی گزاروں کو مایوس کرنے والا فیصلہ سنایا اور بی جے پی حکومت
کے ذریعےپانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے اثر کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے دونوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دینے کے فیصلہ پر مہر ثبت کردی۔
اس کے علاوہ عدالت نے صدر کا آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے حکم کو آئینی طور پر تسلیم کرلیا۔ کورٹ کے اس فیصلہ سے کشمیر میں نیم خود مختاری کی وکالت کرنے والوں میں بڑی مایوسی دیکھی گئی۔ کورٹ کے احاطہ میں 370 کے حامی وکلا خاموشی کے ساتھ مایوسی کا اظہار کرتے نظر آئے۔ عرفان لون نے برملا بولنے کی کوشش کی تو انہیں نعرہ بازی کا سامنا کرنا پڑا۔