کشمیر میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اردو چھوڑ کر ہندی زبان استعمال کرنے لگے ہیں، حالانکہ کشمیر انڈیا کی واحد ریاست ہے جہاں کی سرکاری زبان اردو ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
ایک جانب اسے سکیورٹی فورسز، سیاحوں اور مزدور طبقے کی بڑی تعداد کی موجودگی کا اثر کہہ سکتے ہیں مگر دوسری جانب سرکار کی ہندی زبان کو رائج کرنے اور ذریعہ اظہار بنانے کی مرکزی پالیسی بھی کارگر ثابت ہو رہی ہے۔
جب بیشتر محکموں کے اردو نام راتوں رات ہندی میں تبدیل ہو رہے ہیں تو عوام کو اسے بول چال میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اضافی زبان سیکھنا غلط نہیں مگر ایک زبان کو ختم کر کے دوسری زبان سیکھنا خود زبانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
جموں و کشمیر میں جو محکمہ کل تک ’محکمہ صحت‘ کہلایا جاتا تھا، اسے اب اکثر لوگ ’سواست وبھاگ‘ کہنے لگے ہیں۔ اسی طرح سرکار کی جانب سے جو نئی سکیمیں جاری کی جاتی ہیں ان کے نام ہندی میں ہوتے ہیں، جیسے ’اجولا سکیم‘ یا سوچھ بھارت وغیرہ، حالانکہ ماضی میں اکثر سکیمیں جموں و کشمیر میں اردو زبان میں متعارف کی جاتی تھیں۔
اس کے علاوہ دفتروں کے بورڈ یا سڑکوں پر سائن بورڈ جو اردو میں ہوتے تھے وہ بھی اب ہندی میں بدلے جا رہے ہیں۔
ماہر لسانیات کا خیال ہے کہ بڑی وجہ یہ ہے کہ مقامی انتظامیہ میں بیشتر افسر شمالی انڈیا کے ہندی بیلٹ سے آتے ہیں اور وہ اکثر ہندی زبان بولتے ہیں۔
چار سال پہلے جموں و کشمیر کو مرکزی حکومت کے براہ راست کنٹرول میں لانے کے بعد انتظامیہ، پولیس اور عدلیہ میں بیشتر افسر باہر کی ریاستوں سے یہاں تعینات کیے جا رہے ہیں۔
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب اردو زبان کومسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر پاکستان کی زبان بنا دیا گیا تو انڈیا میں اسی وقت اس زبان کا زوال شروع ہو گیا تھا۔ البتہ جموں و کشمیر میں چونکہ یہ پہلے ہی سرکاری زبان تھی لہٰذا اسے مسلم اکثریت ریاست کی وجہ سے بدستور سرکاری زبان رکھا گیا۔
معروف شاعر اور مصنف جاوید اختر کہتے ہیں کہ ’برصغیر کے تمام لوگ اصل میں اردو بولتے ہیں۔ اگر کوئی اسے پاکستان کی زبان کہتا ہے تو وہ ہمارے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔ پاکستان بھی تو اس خطے کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے، اگر پاکستان کہہ دے کہ کشمیر میرا ہے تو کیا ہمیں یہ مان لینا چاہیے۔ زبانیں حدود میں قید نہیں کی جا سکتی ہیں۔‘
مگر اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ انڈیا میں 20 کروڑ مسلمانوں کی اردو کہلانے والی زبان اب ہندی کہلائی جاتی ہے، حالانکہ بیشتر الفاظ اب بھی اردو زبان کے ہیں۔
مسلمانوں نے زبان کا تلفظ صحیح کرنے کے بجائے ہندی لفظ کو ہی قبول کیا بلکہ خود ہندی کو اپناتے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول فیض دکنی: ’جو اردو زبان کی حالت بنا دی گئی ہے میں اسے اردو زبان کا ریپ سمجھتا ہوں، اس کا وجود تار تار ہے، اس کی لطافت، فصاحت اور بلاغت ختم، اب اس پر نوحہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔‘
1947 کے بعد اردو کا وجود، فروغ اور پرستار صرف جموں و کشمیر میں اب تک موجود ہیں۔ بڑی تعداد میں آج بھی اردو اخبارات کشمیر میں شائع ہوتے ہیں۔
ماضی میں بھی اس زبان کو ختم کرنے کے کئی وار کیے گئے مگر یہاں کے عوام نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے زبان کو سرکاری زبان کی حثیت سے قائم و دائم رکھا۔
لیکن جموں و کشمیر میں اندرونی خودمختاری ختم ہونے کے بی جے پی کے فیصلے کے بعد پہلا حملہ اردو زبان پر ہوا۔ بڑی خاموشی سے محکموں کے اردو نام تبدیل کیے جا رہے ہیں، تعلیم کے محکمے کو جب ’شکشا وبھاگ‘ سے پکارا جانے لگا تو باقی محکمے خو بخود ہندی کا لبادہ اوڑھنے لگے۔
اس وقت وادی میں بیشتر نجی سکولوں میں اردو برائے نام پڑھائی جا رہی ہے انگریزی اور ہندی پر خاصی توجہ مرکوز ہے۔
بیشتر کشمیری بخوشی اپنے بچوں کو انگریزی پڑھانے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔
آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کا غم تو سب کو اندر سے کھائے جا رہا ہے مگر اردو زبان کی دھیرے دھیرے موت پر کوئی بات نہیں کرتا۔ کشمیری زبان بولنے سے ویسے بھی اب لوگ کتراتے ہیں۔ کشمیریت کا ڈھول 24 گھنٹے بجاتے رہتے ہیں لیکن کشمیری زبان، ثقافت اور تہذیب کو خود اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے جا رہے ہیں۔
انڈیا میں پہلے ہی اکثر علاقوں کے اردو نام تبدیل کیے گئے ہیں، مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کرنے کی مہم جاری ہے۔ مغلیہ دور کی عمارتوں کو ہندوؤں کی وراثتی جاگیر قرار دیا جا رہا ہے حتیٰ کہ تاج محل پر بھی اب تضاد شروع کر دیا گیا ہے۔
اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بعض کٹر ہندو اردو رسم الخط کو ختم کر کے دیوناگری استعمال کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
کشمیر میں اردو کے پروفیسر سرور (سکیورٹی کی خاطر نام تبدیل کردیا گیا ہے) کہتے ہیں کہ انڈیا کے طرز پر جموں و کشمیر میں بھی بہت سے علاقوں کے نام تبدیل کرنے کی تجویز آ رہی ہے، مگر اس پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ہر جائز مطالبے کو ’دہشت گردی‘ کے زمرے میں ڈال کر جیل میں قید کردیا جاتا ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ جیسے غنڈہ راج قائم ہوا ہے۔ اب تو یہ سب کا تکیہ کلام بھی بن چکا ہے کہ ہر طرف خطرات منڈلا رہے ہیں۔‘
میں نے 70 کی دہائی میں وہ منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جب امیرا کدل میں ویمنز کالج مولانا آزاد روڈ کا نام تبدیل کر کے جواہر لال نہرو میموریل کے نام پر رکھنے کی تجویز سامنے آئی تھی، تو پورا کشمیر سڑکوں پر امڈ آیا تھا اور مظاہرین کے شدید ردعمل نے حکومت کو تجویز واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔
اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بعض کٹر ہندو اردو رسم الخط کو ختم کر کے دیوناگری استعمال کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
اردو میڈیا سے وابستہ ایک صحافی محمد انجم کہتے ہیں کہ ’اگر سرکار کی اس پالیسی کو روکنے کی پہل نہیں کی گئی تو عنقریب کشمیر کا نام بھی تبدیل کر دیا جائے گا، پھر نہ شاید کشمیری رہیں گے اور نہ ان کی زبانیں۔‘
انڈیا میں ویسے بھی اردو کے نام پر غالب اور انیس کی قبریں ہی بچی ہیں، جو بیشتر بھکاریوں کا مسکن بن گئی ہیں، کشمیر بھی اب اسی سمت جا رہا ہے۔
جب کسی زبان کا قتل کرنا ہو تو تین اہم ادارے کام میں لائے جاتے ہیں پارلیمان، میڈیا، تعلیم۔
انڈیا میں جب ہندی زبان کو سنہ 49 میں سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تو سب سے پہلے میڈیا کو اسے فروغ دینے میں متحرک کر دیا گیا، پارلیمان میں اس کو بول چال کے لیے استعمال کیا گیا، پھر جب سکولوں میں اسے ذریعہ تعلیم بنا دیا گیا تو اردو سمیت باقی زبانیں خود اس کی زد میں آ گئیں۔
مگر ہندی کو اردو پر فوقیت دینے اور موثر بنانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا کلیدی کردار ہے، جس نے لسانی پالیسی کے علاوہ ہندی زبان کو زبان زد عام بنانے میں نمایاں کام کیا ہے۔
ہندی زبان کو سب پر تھوپنے سے جنوب اور شمال کے علاقوں میں گو کہ رسہ کشی گہری ہوتی جا رہی ہے مگر اس پالیسی کے اطلاق کا جموں و کشمیر میں کون توڑ کر سکتا ہے۔
جہاں خوف و ہراس کے ماحول میں زندگی داؤ پر لگی ہے، وہاں زبان ختم ہونے کا رونا کون روئے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔