پشاور کا تاریخی ظروف سازی کا فن، جو صدیوں سے اس شہر کی پہچان تھا، اب جدیدیت اور مہنگائی کے طوفان میں زوال پذیر ہو رہا ہے۔
پشاور کا بازار مسگراں، جو کبھی تانبے اور پیتل کے خوبصورت برتنوں کی دلکش نقش و نگاری کے لیے مشہور تھا، اب زوال کا شکار ہے۔
بازار کی چمک دمک ماند پڑ چکی ہے، جہاں کبھی چمکتے ہوئے برتن سیاحوں کو لبھاتے تھے، وہاں اب دھول اور مکھڑی کے جالے نظر آتے ہیں۔ کبھی اس بازار میں چالیس دکانیں تھیں، لیکن اب صرف دو دکانیں رہ گئی ہیں، اور کاریگر بے روزگار ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
120 سال سے ظروف سازی کرنے والے ایک خاندان سے تعلق رکھنے والے سعد سعید نے بتایا کہ یہ فن ان کے دادا سے وراثت میں ملا، مگر مہنگائی نے اس صنعت کو ختم کر دیا۔ ’پہلے لوگ جہیز میں تانبے اور پیتل کے برتن لیتے تھے، مگر اب ان کی جگہ سستے سٹیل اور پلاسٹک کے برتنوں نے لے لی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد رک جانے اور حکومت کی عدم توجہی نے کاریگروں کی حالت مزید خراب کر دی ہے۔ ’پہلے کاریگر کارخانوں میں کام کرتے تھے، اب اپنے گھروں میں۔ جہاں پہلے دس کاریگر ایک ساتھ کام کرتے تھے، اب ہر کوئی علیحدہ محنت مزدوری کر رہا ہے۔'
سعد سعید نے مزید بتایا کہ آج کل کبھی کبھار کوئی ڈیکوریشن پیس خرید لیتا ہے۔
یہ افسوس ناک ہے کہ پشاور کی ثقافت کا اہم حصہ زوال پذیر ہے اور اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو یہ ہنر ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔