پاکستان میں حقوق انسانی کی ایک بڑی تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے نئے سال کی آمد پر ملک میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی مجموعی صورت حال پر تشویش کا اظہار اور اس پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں جاری ایک بیان میں تنظیم کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ سب سے اہم مسئلہ انتخابی عمل میں کھلی ساز باز ہے جس میں ایک سیاسی جماعت کےمنظم طریقے سے حصے بخرے کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’اگرچہ ایچ آر سی پی کسی بھی فریق کے تشدد کو جائز قرار نہیں دیتا مگر ریاست کا ردعمل انتہائی غیرمناسب اور غیرقانونی ہے۔‘
ایچ آر سی پی کا اصرار تھا کہ اس حوالے سے جانا پہچانا طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ ’پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کی گرفتاری، ان پر لگائے گئے مبہم الزامات، پارٹی کارکنان کے پرامن اجتماع کے حق پر پابندیاں، جبری گمشدگیاں، پارٹی کے رہنماؤں پر پارٹی چھوڑنے یا سیاست سے ہی کنارہ کشی کرنے کے دباؤ کے واضح آثار اور ابھی حال ہی میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی بڑے پیمانے پر نامنظوری اس طریقہ کار کا حصّہ ہیں۔‘
چیئرپرسن کا کہنا تھا کہ کئی دیگر جماعتوں کو بھی کسی نہ کسی طرح اس سے ملتے جلتے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ’اس وقت، یہ دکھانے کے لیے بہت کم شواہد ہیں کہ اگلے انتخابات آزاد، شفاف اور معتبر ہوں گے۔‘
اسی قسم کے الزامات سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بھی حکام پر عائد کر رہے ہیں۔ پارٹی کے اس وقت بیرون ملک مقیم رہنما زلفی بخاری نے بھی ایک بیان الزام عائد کیا کہ ان کے کاغذات نامزدگی اس بنیاد پر مسترد کیے گئے کہ ’میرے دستخط جعلی ہیں۔ میرے چھ وکلا، تجویز کنندگان اور حمامیوں کو اغوا کر لیا ہے۔‘
تاہم نگران حکومت یا الیکشن کمیشن آف پاکستان اس قسم کے الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ آزاد، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے ہر کوشش کر رہے ہیں۔
اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن نے عوامی شکایات کے اندراج اور حل کے لیے الیکشن مانیٹرنگ اور کنٹرول مراکز قائم کیے ہیں۔ یہ مراکز اسلام آباد سمیت صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر قائم کیے گئے ہیں تاکہ عوامی شکایات کا فوری ازالہ کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حقوق انسانی کی تنظیم نے بیان میں امن و امان کی خاص طور پر خیبر پختونخوا میں صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ’شدت پسندی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقصد کے لیے فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے دے جبکہ حکومت یقینی بنائے کہ پولیس کے پاس شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری تربیت اور وسائل ہوں۔‘
تنظیم کا کہنا تھا کہ ریاست گذشتہ برس کی طرح مشکوک خفیہ مذاکرات کے ذریعے شدت پسندوں کو پھر سے مضبوط ہونے کا موقع فراہم نہ کرے۔ اس کے علاوہ سابق فاٹا کا انضمام اور اسے مرکزی دھارے میں لانا ایک بڑی کامیابی ہے جسے کسی صورت واپس نہ لیا جائے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق اختلافِ رائے پر ریاستی پابندیوں، چاہے آزادیِ رائے، اظہار یا اجتماع پر ہوں، نے ملک میں شہری آزادیوں کو مزید محدود کیا ہے وہ بھی ایسے وقت پر جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ’جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی بلوچ خواتین مظاہرین کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن ریاست پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ ایسے جابرانہ ہتھکنڈوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ایچ آر سی پی نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے بلوچ عورتوں کے ساتھ اظہار ِیک جہتی کیا اور مطالبہ کیا کہ ریاست تمام لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرے۔
ایچ آر سی پی پُر زور مطالبہ کرتا ہے کہ مسائل کو منتخب حکومت ترجیحی بنیادوں پر حل کرے جو شفاف طریقے سے اقتدار میں آئے، بیرونی دباؤ سے آزاد رہ کر کام کرے، اور تمام شہریوں اور باشندوں کے حقوق کے تحفظ و احترام کے لیے پرعزم رہے۔
ایچ آر سی پی نے گذشتہ برس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی جانب سے غیرمحفوظ طبقوں کے حقوق پر نئے سرے سے حملے ہوئے۔ ’مسیحوں اور احمدیوں کی عبادت گاہوں کی بہیمانہ تباہی دیکھی گئی۔‘ اگست 2023 میں جڑانوالہ میں 30 سے زائد گرجا گھروں کو شدید نقصان پہنچانے کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف توہینِ مذہب کے قوانین کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث ان برادریوں کی مذہبی آزادی کا حق تو کجا حق زندگی اور معاش بھی محفوظ نہیں رہا ہے۔
’سانحہ جڑانوالہ کی عدالتی تحقیقات کروانے کے مسیحی برادری کے جائز مطالبے کا احترام کیا جائے اور تمام متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔ ایچ آر سی پی مذہبی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتِ عظمٰی کے 2014 کے فیصلے کے نفاذ کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔‘
افغان پناہ گزین
تنظیم کا کہنا تھا کہ غیر محفوظ افغان پناہ گزینوں اور پناہ کے طلب گاروں کو عالمی قانون کے برخلاف اور ان کے اپنے وطن میں ان کی سلامتی کے امکانات کا خیال رکھے بغیر، بے دخل کرنے سے بہت سی عورتیں، بچے، بوڑھے اور معذور افغان شہریوں کی زندگی داؤ پر لگ گئی ہے۔