غزہ کو ملکیت میں لینے کے ٹرمپ کے بیان پر امریکی انتظامیہ کی وضاحتیں

غزہ کو ملکیت میں لینے کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر عالمی برادری کی جانب سے شدید ردعمل کے بعد امریکی انتظامیہ پیچھے ہٹتی دکھائی دی اور وائٹ ہاؤس نے اصرار کیا ہے کہ امریکی فوجیوں کو بھیجنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔

5 فروری 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں حلف برداری کی تقریب کے دوران نئے تصدیق شدہ اٹارنی جنرل پام بوندی کے ساتھ بات کرتے ہوئے (اے ایف پی)

غزہ کو ملکیت میں لینے کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر ہنگامہ برپا ہونے کے بعد بدھ کو امریکی انتظامیہ پیچھے ہٹتی دکھائی دی اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ غزہ کے باشندوں کی کوئی بھی منتقلی عارضی ہو گی، جبکہ وائٹ ہاؤس نے اصرار کیا کہ امریکی فوجیوں کو بھیجنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق اقوام متحدہ نے فلسطینی علاقے میں ’نسل کشی‘ کے خلاف متنبہ کیا ہے جبکہ فلسطینیوں، عرب حکومتوں اور عالمی رہنماؤں کی جانب سے بھی امریکی صدر کی تجویز پر تنقید کی گئی ہے۔

تاہم ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ’ہر کوئی وہ منصوبہ پسند کرتا ہے‘ جس کا اعلان انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو کس طرح بےدخل کر سکتا ہے یا جنگ زدہ علاقے کو کنٹرول کر سکتا ہے، اس بارے میں چند تفصیلات پیش کرتے ہوئے ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا: ’امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا اور ہم یہاں تعمیراتی کام کریں گے۔ ہم اس کے مالک ہوں گے۔‘

وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ یہ خیال ’مخاصمانہ ارادے سے پیش نہیں کیا گیا تھا‘ اور اسے ایک ’فراخ دلانہ اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ تعمیر نو ان کی نگرانی کی ذمہ داری لینے کی پیشکش تھی۔‘

بعد ازاں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارولن لیویٹ نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادی اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان 15 ماہ سے زائد عرصے کے تنازعے کے بعد غزہ کی تعمیر نو کے لیے مالی اعانت فراہم نہیں کرے گا۔

لیوٹ نے کہا کہ امریکہ کی شمولیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’ فوجی تعینات کیے جائیں‘ یا ’امریکی ٹیکس دہندگان اس کوشش کو مالی اعانت فراہم کریں گے۔‘

اقوام متحدہ کی غزہ میں نسل کشی کے خلاف وارننگ

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی نسل کشی کے مترادف ہو گی۔ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا کہ فلسطینی عوام کو اپنی زمین پر ایک عام انسان کی طرح جینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے بھی کہا کہ کسی بھی قوم کو جبری طور پر بےدخل کرنا نسل کشی کے مترادف ہے۔

عالمی ردعمل

فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے فلسطینیوں کی جبری بےدخلی کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا، جبکہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے فلسطینی سرزمین پر قبضے اور عوام کی بےدخلی کی کسی بھی کوشش کو مسترد کر دیا۔

سعودی عرب اور عالمی برادری کا مؤقف

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں، تاہم ریاض نے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور کسی بھی جبری بے دخلی کو مسترد کرتا ہے۔

یورپی یونین نے کہا کہ ’غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا ایک اٹوٹ انگ ہے۔‘ 

متحدہ عرب امارات اور چین نے بھی فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مخالفت کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا۔

ٹرمپ کی تجویز پر مذمت 

امریکی عہدیدار لیوٹ نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینیوں کو ’عارضی طور پر‘ غزہ سے نکالنے کے متعلق ہے۔ تاہم فلسطینی حکام، عرب رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس تجویز کو ’نسل پرستانہ‘ اور ’اشتعال انگیز‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، یہ تجویز امریکہ کو جنگی جرائم میں براہ راست شریک بنا دے گی۔

اسرائیلی حملے اور تباہی

اکتوبر2023 میں اسرائیلی جارحیت میں غزہ کا بڑا حصہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سکول، ہسپتال اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، یہ اسرائیل کی سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ ہے تاکہ غزہ کو ناقابل رہائش بنایا جا سکے۔

جنگ کے اعداد و شمار

اسرائیلی حملوں میں غزہ میں کم از کم 47,518 فلسطینی مارے گئے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو معتبر مانتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا