اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض خان پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہو گئے ہیں، جس کا اعلان انہوں نے جمعے کو ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ کے ذریعے کیا۔
عمران ریاض کا نام وقتاً فوقتاً ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا جاتا رہا ہے، جس کے تحت ملک چھوڑنے پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ گذشتہ برس جولائی میں حج کے لیے روانگی کے موقعے پر بھی عمران ریاض کو ایئرپورٹ سے حراست میں لے لیا گیا تھا، اس موقعے پر انہوں نے ایکس پر کہا تھا کہ ’عدالتی حکم کے باوجود ان کا نام بدستور ای سی ایل میں موجود ہے۔‘
وہ گذشتہ تقریباً ایک ماہ سے منظرعام سے غائب تھے۔ تاہم وہ اپنے یو ٹیوب چینل پر باقاعدگی سے وی لاگز کر رہے تھے، جن میں پس منظر کو واضح طور پر دکھایا نہیں جاتا تھا۔
عمران ریاض نے جمعے کو اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اپنی بیرون ملک منتقلی کا اعلان کیا، جس میں واضح نہیں ہے کہ وہ کس طریقے سے اور کس ملک منتقل ہوئے ہیں۔
تاہم بیرون ملک مقیم پاکستانی صحافی معید پیر زادہ کی ایکس پر پوسٹ سے واضح ہوتا ہے کہ عمران ریاض برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔
معید پیرزادہ نے اپنی پوسٹ میں عمران ریاض کو بحفاظت برطانیہ پہنچنے پر مبارک باد دیتے ہوئے لکھا: ’عمران اور ان کے اہل خانہ نے پاکستان کے فسطائی نظام کے ہاتھوں بے حد مشکلات کا سامنا کیا، لیکن آخرکار اب انہیں پاکستانی ریاست پر کھل کر بات کرنے کا موقع مل گیا ہے۔‘
ایکس پر اپنے آفیشل اکاؤنٹ پر31 جنوری کو عمران ریاض نے اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’ڈیل کر کے لوٹا ہوا مال اٹھا کر خصوصی طیاروں سے فرار ہونے میں اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہ کر جان ہتھیلی پر رکھ کر ہجرت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’مجھے فخر ہے کہ میرے رب نے ہر ظلم کے خلاف مجھے استقامت عطا فرمائی۔ میں نے بدترین تشدد اور خوفناک قید کاٹی ہے۔ 10 گرفتاریاں اور درجنوں مقدمے ہوئے، حج تک سے زبردستی روکا گیا، مگر میرے رب نے مجھے صبر دیا۔‘
عمران ریاض نے اپنی پوسٹ میں پاکستان جلد واپس آنے کا وعدہ بھی کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے صحافی عمران ریاض خان کے بیرون ملک چلے جانے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی غرض سے ان کے وکیل میاں علی اشفاق اور اہل خانہ سے کئی مرتبہ رابطہ کیا، لیکن انہوں نے اس سلسلے میں گفتگو کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بھی عمران ریاض کے باہر جانے سے متعلق کسی تبصرے سے گریز کیا۔
عمران ریاض کی اس ٹویٹ پر کئی صارفین اور ان کے ساتھی دوستوں کی جانب سے تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ جہاں ان کے لیے دعائیں ہیں، وہیں تنقید بھی شامل ہے۔
طارق متین نے لکھا: ’چہرے پر اس پٹی کے ساتھ پیٹ پر بھی ایک زخم کا نشان ہے۔ یہ پانچ لائنیں اس کہانی کا خلاصہ بھی نہیں جو اس ہجرت کی اصل داستان ہے۔‘
عمران ریاض کے دیرینہ دوست اور ان کے وکیل میاں علی اشفاق نے اپنی پوسٹ میں قرآن کی ایک آیت ’پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے،‘ شیئر کی، جسے عمران ریاض نے اپنے اکاؤنٹ سے ری پوسٹ بھی کیا۔
ایکس پر ایک صارف فاطمہ نے صحافی ارشد شریف کو یاد کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’کاش ارشد شریف کی بھی کوئی مدد کرتا اور وہ بھی کسی محفوظ مقام پر پہنچ جاتے۔‘
ایک اور صارف نے عمران ریاض کی طرز صحافت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’عمران ریاض ’قربانی‘ کا بیانیہ بیچ کر فرارہوگئے ہیں۔ ان کی نام نہاد صحافت حقیقت میں ریاست مخالف پروپیگنڈہ تھی، جو ذاتی مفادات کے لیے کی جا رہی تھی۔ حقیقی محب وطن ملک میں رہ کر جدوجہد کرتے ہیں، نہ کہ باہر بیٹھ کر لیکچر دیتے ہیں۔ بھاگ جانا بہادری نہیں، منافقت ہے۔‘