سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے جمعے کو اجلاس میں سزائے موت سرعام پھانسی کے ذریعے دینے کی تجویز کی مخالفت میں قرار داد منظور کرنے کے علاوہ کمیٹی اراکین نے بلوچ مظاہرین سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
سینیٹ کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں سرعام پھانسی دینے کی تجویز سے متعلق معاملہ زیر غور آیا تو چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے بتایا کہ داخلہ کمیٹی نے ایک بل منظور کیا ہے جس میں سزائے موت پانے والے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے کی تجویز ہے۔
سینیٹر ولید اقبال کا کہنا تھا: ’بطور انسانی حقوق کمیٹی چیئرمین مجھے اس کے خلاف بہت کالز آئیں کہ اس کا نوٹس لیں۔ داخلہ کمیٹی نے اس بل کو انسانی حقوق کے تناظر میں نہیں دیکھا تھا۔‘
سیکریٹری انسانی حقوق اے ڈی خواجہ نے اس موقع پر کہا کہ ’یہ ایک حساس معاملہ اور اس کے قومی اور بین القوامی اثرات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بین القوامی ڈونرز کا سزائے موت اور سر عام پھانسی کے حوالے سے سخت موقف ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 33 پاکستانی قوانین کے تحت عدالت ملزم کو سزا موت سنا سکتی ہے۔ ’ان قوانین کا تعلق دہشت گردی، ریپ، ہائی جیکنگ، آرمی میں مس کنڈکٹ اور توہین رسالت شامل ہیں۔‘
اے ڈی خواجہ نے کمیٹی اراکین کو مطلع کیا کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں قانوناً موت کی سزا موجود ہے، لیکن یورپ کے اکثر ممالک میں ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین سزا موت کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
سیکریٹری انسانی حقوق نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستانی قوانین کے تحت سزائے موت پانے والے مجرمان کو سرعام پھانسی دینا ممکن ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اے ڈی خواجہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے سیکشن 22 کے مطابق حکومت سزائے موت کا طریقہ اور جگہ کا تعین کر سکتی ہے۔
’اس کا مطلب ہے کہیں بھی سزائے موت دی جا سکتی ہے، یعنی سر عام پھانسی انسداد دہشت گردی قانون میں موجود ہے۔‘
اے ڈی خواجہ نے مزید بتای: ’زینب ریپ کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ جابرانہ جرم کی سر عام پھانسی کی طرح کی جابرانہ سزا نہیں دی جا سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان سات بین الاقوامی انسانی حقوق کنونشنز پر دستخط کر چکا ہے۔ ’دنیا کی توقع ہے کہ ہم سزائے موت ختم کریں۔ یورپی یونین نے جی ایس پی سٹیٹس نظر ثانی پر سزائے موت معطل کرنے کا کہا تھا۔
’وزارت انسانی حقوق کا مؤقف ہے کہ سرعام پھانسی پاکستان کے بین الاقوامی مفاد میں نہیں ہے اور اس سے پاکستان کا دنیا میں تشخص خراب ہوگا۔‘
سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے مزید کہا کہ پاکستان میں سرعام پھانسی نہیں دینا چاہیے۔
اپنی بات کے حق میں دلیل ہوئے انہوں نے کہا خلیجی ممالک میں منشیات لے جانے والوں کو سر عام پھانسی دی جاتی ہے اور سعودی عرب میں منشیات کی سمگلنگ کرنے والے گرفتار ہوتے لیکن دوسرے پھر بھی وہی کام کرتے ہیں۔
’سعودی عرب میں بھی سرعام پھانسی منشیات کی سمگلنے کو روکنے کا کام نہیں کر پا رہی۔‘
رکن کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں آخری مرتبہ فوجی صدر جنرل ضیا الحق کے دور میں لاہور میں پپو نامی شخص کی سرعام پھانسی دی گئی تھی۔
سیکریٹری نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کامران راجڑ نے کہا کہ جیل قوانین بھی سر عام پھانسی کی اجازت نہیں دیتے، جن میں پھانسی کے عمل کو 10 یا 11 افراد کے دیکھنے کا کہا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایران میں بھی منشیات سے متعلق قوانین کے تحت سرعام پھانسیاں دیں جاتی تھیں لیکن اب انہوں نے یہ سزا ختم کر دی ہے۔
’ہم نے بھی وفاقی حکومت کو کہا ہے کہ منشیات سے متعلق قوانین میں سے سزا موت ختم کی جائے کیونکہ پھانسی سے جرم کے رکنے کے شواہد موجود نہیں ہیں۔‘
سینیٹر مشاہد حسین سید نے سرعام پھانسی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا: ’یاد رکھیں آخر میں سیاست دانوں کو سرعام پھانسیاں ہوں گی۔‘
سیکریٹری این سی ایچ آر نے کمیٹی کو بتایا: ’وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ انسان کے وقار کا آئین میں ذکر ہے جب کہ قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل میں بھی اولاد آدم کی عزت کا ذکر موجود ہے۔‘
سینیٹر مہر تاج روغانی نے کہا پاکستان نے دوسرے ہزاروں بین الاقومی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔
’ان معاہدوں کا کیا ہوا؟ اس لیے ان معاہدوں کی بات نہ کریں۔ ہمیں یورپی یونین کو قائل کرنا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ جس شخص کی زندگی لے لی گئی اس کے حقوق کہاں گئے؟
’امریکہ میں ہر جرم سعودی عرب سے 100 گنا زیادہ ہے اور کیا وجہ ہے سعودی عرب میں جرم کی شرح اتنی کم ہے؟ ہم یہ معاہدہ اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمیں پیسہ چاہیے۔ ہمیں اپنی روایات نہیں چھوڑنا چاہیے۔ سر عام سزا بہت رکاوٹ بنتی ہے۔‘
چئیرمین کمیٹی ولید اقبال نے کہا زینب ریپ کیس میں پھانسی کے بعد ریپ کیسز میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے سوال اٹھایا: ’ریپ کیسز میں 33 فیصد اضافہ ہوا یا کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے؟ میں سمجھتا ہوں کہ سزائے موت سے ایسے کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے کہ لوگوں کو سزا ملے۔ سر عام پھانسی سے جرائم میں رکاوٹ ملے گی۔‘
چئیرمین ولید اقبال نے کہا: ’چند کمیٹی اراکین سر عام پھانسی کی حمایت کرتے ہیں۔‘
کمیٹی اراکین بشمول وقار مہدی، سینیٹر مشاہد حسین سید اور کامران مائیکل نے سر عام پھانسی کی مخالفت کی۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا: ’ہم شواہد نہیں دیکھنا چاہتے۔ دل کی خواہشات پر ہاں یا نہ کرتے ہیں۔ اگر سر عام پھانسی غلط ہے تو اس حوالے سے ہم ریسرچ کرتے۔ اگر سرعام پھانسی سے جرم میں کمی آئے تو ہم شواہد سامنے لائیں۔ ہمیں قوانین کو بلڈوز کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ آپ لوگ آنکھیں بند کرکے فیصلے کر رہے ہیں۔‘
چئیرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال نے کہا سر عام پھانسی کے خلاف زیادہ ووٹ آئے ہیں۔
اس دوران سینیٹر مہر تاج روغانی نے واک آوٹ کرتے ہوئے کہا: ’اتنی جلدی ووٹنگ کروانے کے خلاف واک آوٹ کرتی ہوں۔‘
بعد ازاں اجلاس نے سزائے موت کے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے سے متعلق قرار کثرت رائے سے منظور کر لی۔
قرارداد کے مطابق: ’کمیٹی سرعام پھانسی کی مخالفت کرتی ہے۔ کمیٹی سینیٹ سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ایسا کوئی قانون منظور نہ کرے جس میں سرعام پھانسی کا ذکر ہو۔ جبکہ کمیٹی کے دو اراکین نے رائے دی کہ اس معاملے پر پہلے ریسرچ کی جائے۔‘
کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بلوچ مظاہرین سے ملاقات کا فیصلہ بھی کیا۔
چئیرمین ولید اقبال نے کہا این سی ایچ آر نے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کی۔
’ہم نے بلوچ مظاہرین کے ترجمان کو کال کی اور انہیں کمیٹی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تاہم انہوں نے کہا کہ ہم نہیں آسکتے کیونکہ ہماری کوئی اور ملاقات طے ہے۔ ہم نے ماہ رنگ بلوچ اور حاجی صبغت اللہ کو اجلاس میں ملاقات کی دعوت دی تھی۔‘
سیکریٹری این سی ایچ آر نے کہا ریاست نے بلوچ مظاہرین کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔
سینیٹر ولید اقبال نے کہا: ’کمیٹی اراکین جا کر مظاہرین سے ملیں۔کمیٹی قوانین کے مطابق چیئرمین سینیٹ سے اجازت کے بعد کمیٹی اراکین وہاں جائیں گے۔‘