امریکہ کو نئے فوجی بھرتی کرنے میں بحران کا سامنا

2022 اور 2023 میں فوج کو اپنی بھرتی کے ہدف سے تقریباً 25 فیصد کمی کا سامنا رہا۔ نیوی اور آرمی ریزرو بھی اپنے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

19 دسمبر، 2024 کو ہنوئی میں ویتنام 2024 انٹرنیشنل ڈیفنس ایکسپو کے دوران امریکی فوج کا ایک فوجی سٹرائیکر گاڑی کے سامنے کھڑا ہے (جیانگ ایچ یو وائی / اے ایف پی)

امریکہ کو عالمی سطح پر اپنی عسکری طاقت برقرار رکھنے کے لیے فوجیوں کی کمی کا سامنا ہے۔

امریکی میگزین دی نیویارکر کے مطابق 2022 اور 2023 میں فوج کو اپنی بھرتی کے ہدف سے تقریباً 25 فیصد کمی کا سامنا رہا۔ نیوی اور آرمی ریزرو بھی اپنے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

2016 کے بعد سے آرمی ریزرو بھی اپنے اہداف پورے نہیں کرسکی ہے، اور تعداد اتنی کم ہو چکی ہے کہ فعال ڈیوٹی افسروں کو ریزرو یونٹوں کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔ کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر ملک جنگ کی طرف جاتا ہے، تو بہت سے ریزرو یونٹ تعینات مہیں ہوسکتے ہیں۔

ان مسائل پر کام کرنے والے ایک امریکی اہلکار نے کہا ’ہمیں کافی لوگ نہیں مل رہے۔‘

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر، امریکی فوج میں ایک کروڑ 12 لاکھ فعال ڈیوٹی ممبران تھے، جو اب محض 13 لاکھ رہ گئے ہیں۔ امریکہ 50 سے زیادہ ممالک میں فوجی اڈے چلاتا ہے اور تقریباً اتنے ہی ممالک میں خصوصی آپریشن فورسز تعینات کرتا ہے۔

2022 میں ’فیوچر سولجرز‘ پروگرام شروع کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو فوج میں شامل کیا جاسکے۔

اس پروگرام میں یہاں تک کہ معیار کو کم کر کے بھی نوجوانوں کو وزن کم کرنے اور مسلح افواج کے امتحان میں کامیاب ہونے میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ملک جنگ میں گیا تو بہت سے ریزرو یونٹس تعینات نہیں ہو سکیں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق سینیئر اہلکار لارنس ولکرسن نے جو مسلح افواج کو درپیش چیلنجز پر ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں، دی نیویارکر کو بتایا کہ امریکی فوج تین دہائیوں سے سکڑ رہی ہے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بھرتی میں کمی کی وجہ بائیڈن انتظامیہ کی تنوع، مساوات، اور شمولیت کے پروگرام ہیں۔ انہوں نے ’ووک (woke) جنرلز‘ پر جنگ لڑنے کی بجائے ڈی ای آئی (Diversity, equity, and inclusion) کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔

اپنی دوسری مدت کے پہلے دن، ٹرمپ نے وفاقی حکومت میں ڈی ای آئی اقدامات پر پابندی عائد کر دی۔

انہوں نے کوسٹ گارڈ کی سربراہ ایڈمرل لنڈا لی فاگن کو بھی برطرف کر دیا کیونکہ وہ اس طرح کے پروگراموں کی حمایت کرتی تھیں۔ لیکن امریکی فوج میں بھرتی کے ذمہ دار بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان اقدامات سے دہائیوں سے جاری رجحان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

ان کے وزیر دفاع اور نیشنل گارڈ کے ایک سابق رکن پیٹ ہیگ سیٹھ نے فاکس نیوز پر درجنوں بار اسی طرح کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ہیگ سیٹھ کی کتاب ’دی وار آن واریئرز‘ مسلح افواج کو کمزور کرنے کی مہم کے خلاف ایک طویل تنقید مانی جاتی ہے۔

امریکی فوج پچاس سے زیادہ ممالک میں متحرک ہے اور باقاعدگی سے تقریبا اسی ممالک تک میں سپیشل آپریشن فورسز تعینات کرتی ہے۔ ولکرسن کا کہنا تھا کہ ’اب یہ واضح نہیں ہے کہ فوج اتنی ہے کہ امریکہ اپنے وعدوں کو پورا کر سکے۔‘

کئی دہائیوں تک امریکی مسلح افواج نے اپنی ضروریات کی بنیاد ایک دفاعی نظریے پر رکھی جسے ’جیتو اور قبضہ کرو‘ کہا جاتا ہے: ایک جنگ جیتنے کی صلاحیت جبکہ دوسری جنگ کو جمود تک لاتے ہوئے۔

آج جب امریکہ کو سرد جنگ کے بعد سے عالمی سلامتی کے سب سے سخت چیلنجز کا سامنا ہے، بہت سے تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایک جنگ بھی بہت مشکل ہوگی۔

تائیوان کے متنازع جزیرے پر چین کے ساتھ کشیدگی کے نتیجے میں چند ہفتوں میں ہزاروں امریکی ہلاک ہو سکتے ہیں جو عراق اور افغانستان میں بیس سال کی لڑائی میں ملک کو ہونے والے نقصانات کا تقریبا نصف ہے۔

لیکن قانون سازوں نے دوبارہ کنسکرپشن یا جبری بھرتی کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ مسیسپی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر راجر ویکر نے گذشتہ سال سی این این کو بتایا تھا کہ ’ہمیں جلد ہی اس بارے میں مسودے کی ضرورت نہیں ہوگی۔‘

بھرتی کرنے والے حکام ایک ایسی آبادی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں جو نہ صرف غیر پرجوش ہے بلکہ نااہل بھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پینٹاگون کے ایک مطالعے کے مطابق 17 سے 24 سال کی عمر کے درمیان تین چوتھائی سے زیادہ امریکی نااہل ہیں کیونکہ ان کا وزن زیادہ ہے، وہ قابلیت کا امتحان پاس کرنے سے قاصر ہیں، جسمانی یا ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں یا مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اگرچہ سیاسی بیان بازی جاری ہے، لیکن فوجی رہنما ایک وسیع تر مسئلے پر غور کر رہے ہیں کہ کیا کوئی ملک اپنا دفاع کر سکتا ہے جہاں کافی لوگ لڑنے کے لیے تیار یا قابل نہیں ہیں؟

امریکی فوج ان چند اداروں میں سے ایک ہے جو اب بھی وسیع پیمانے پر عوامی حمایت رکھتی ہے۔ پچھلے سال پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے میں 60 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ فوج کا معاشرے پر مثبت اثر پڑتا ہے لیکن لوگوں کے بھرتی ہونے کا امکان کم سے کم ہوتا گیا ہے۔

2021 میں پینٹاگون کو معلوم ہوا کہ صرف نو فیصد نوجوان امریکیوں نے خدمات انجام دینے کا رجحان ظاہر کیا، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں سب سے کم ہے۔ تین سال تک بھرتی کرنے والے ایک افسر نے بتایا کہ آپ یقین نہیں کریں گے کہ ’بہت سے نوجوان یہ بھی نہیں جانتے کہ میرین کیا ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہم کسی طرح کی پولیس فورس ہیں۔‘

11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد حب الوطنی کے جذبات نے نوجوانوں کو فوج کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی ترغیب دی۔ یہ جذبات اس وقت پیدا ہوئے جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ پر حملہ کیا اور پھر جب اس نے عراق پر حملہ کیا جس نے صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

لیکن جیسے جیسے یہ جنگیں طول پکڑتی گئیں، عوام کا موڈ تبدیل ہوتا گیا۔

نائب صدر جے ڈی وینس کو عوامی امور میں کام کرنے کے لیے عراق میں تعینات کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خارجہ پالیسی کے بارے میں خیالات کو گہری سوچ ملی۔ انہوں نے گذشتہ سال سینیٹ میں کہا تھا کہ 'میں نے اپنے ’جب میں عراق گیا تو میں نے دیکھا کہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ یوکرین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘ انہوں نے اور ٹرمپ نے امریکہ کی غیر ملکی الجھنوں کو کم کرنے کے وعدے پر مہم چلائی تھی۔ عراق اور افغانستان کے تلخ تجربات کے بعد یہ پیغام عوام کے مزاج کے مطابق تھا۔

بہت کم امریکیوں میں ہزاروں فوجی بیرون ملک بھیجنے کی خواہش موجود ہے۔

اس کے باوجود ٹرمپ کے حقیقی طرز عمل کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اپنے حالیہ افتتاحی خطاب میں انہوں نے کہا، ’ہم اپنی کامیابی کا اندازہ صرف ان جنگوں سے نہیں لگائیں گے جو ہم جیتتے ہیں بلکہ ان جنگوں سے بھی جو ہم ختم کرتے ہیں۔ اور شاید سب سے اہم وہ جنگیں جو ہم کبھی نہیں لڑتے ہیں۔‘

اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بات بھی کی کہ امریکہ گرین لینڈ اور پاناما کینال پر زبردستی قبضہ کر سکتا ہے اور انہوں نے امریکی فوج کو بڑا اور زیادہ مہلک بنانے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔

ہیگ سیٹھ نے، جن کی تصدیق ملک کی تاریخ میں کسی بھی وزیر دفاع کی سب سے کم فرق سے ہوئی ہے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ’ہماری صفوں میں بھرتی، برقرار رکھنے اور تیاری کے بحران کو حل کریں گے۔‘

نہ تو انہوں نے اور نہ ہی ٹرمپ نے ایسا کرنے کے لیے ابھی کوئی منصوبہ پیش کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین