آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے مطابق شہزادہ رحیم الحسینی آغا خان پنجم کو بدھ کو اسماعیلی برادری کا 50 واں روحانی پیشوا مقرر کر دیا گیا ہے۔
وہ شہزادہ کریم الحسینی، آغا خان چہارم جو منگل کو 88 سال کی عمر میں لزبن میں انتقال کر گئے تھے کے بڑے بیٹے ہیں۔
پرتگال کے شہر لزبن میں 88 سال کی عمر میں انتقال کرنے والے شہزادہ رحیم الحسینی آغا خان پنجم کو ان کے مرحوم والد شہزادہ کریم الحسینی آغا خان چہارم کی وصیت کے بعد شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کا 50 واں موروثی امام (روحانی پیشوا) نامزد کیا گیا ہے۔
آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے بیان کے مطابق اپنی 1400 سالہ تاریخ میں اسماعیلیوں کی قیادت ایک زندہ، موروثی امام نے کی ہوتی ہے۔ اسماعیلی 35 سے زیادہ ممالک میں رہتے ہیں اور ان کی تعداد تقریبا 12 سے 15 ملین ہے۔
12 اکتوبر 1971 کو پیدا ہونے والے امریکی تعلیم یافتہ سوئس نژاد رحیم آغا خان چہارم اور ان کی پہلی بیوی شہزادی سلیمہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ اس جوڑے کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔
رحیم کے سابق امریکی فیشن ماڈل کینڈرا سپیئرز سے شادی سے دو بیٹے ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق وہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے متعدد اداروں کے بورڈز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اس کی ماحولیات اور آب و ہوا کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شہزادہ رحیم ماحولیات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اے کے ڈی این کی مہم پر خاص طور پر فکرمند رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسیوں کے اے کے ڈی این گروپ کا قیام 1967 میں عمل میں آیا تھا اور اس میں 80,000 افراد کام کرتے ہیں جو افریقہ اور ایشیا کے غریب ترین علاقوں میں سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر اور لاکھوں افراد کو بجلی فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی:
تعلیم: انہوں نے براون یونیورسٹی، امریکہ سے اقتصادیات اور بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے بھی کچھ کورسز مکمل کیے۔
نئے امام کے امریکہ اور بیرون ملک طاقتور رابطے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور COP28 جیسے عالمی سربراہی اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں ۔
پیشہ ورانہ زندگی: انہوں نے اپنے والد کی قیادت میں آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) کے مختلف منصوبوں میں کام کیا۔ وہ AKDN کے متعدد بورڈز کے رکن ہیں، جس میں آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈیولپمنٹ کا بورڈ بھی شامل ہے۔
آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) میں کردار:
ترقیاتی کام: پرنس رحیم نے AKDN کے تحت متعدد شعبوں میں کام کیا، جیسے تعلیم، صحت، ثقافتی تحفظ، اور اقتصادی ترقی۔ انہوں نے مائیکروفنانس، انفراسٹرکچر ترقی، اور رورل ڈیولپمنٹ پروگرامز میں خاص دلچسپی لی ہے۔
انتظامی کردار: وہ آغا خان فاؤنڈیشن کے بورڈ میمبر بھی رہے ہیں اور متعدد دیگر AKDN ایجنسیوں کی انتظامیہ میں شامل رہے ہیں۔
مذہبی اور روحانی رہنما:
امامت: اسماعیلی جماعت کے روحانی رہنما کا عہدہ نہ صرف مذہبی بلکہ ترقیاتی کاموں کی قیادت کے لیے بھی اہم ہے۔
خاندانی زندگی:
شادی اور بچے: پرنس رحیم نے 2013 میں کینیڈا کی کیا سیلی سے شادی کی۔ ان کے دو بچے ہیں، ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔
پاکستانی ایوارڈ
پرنس رحیم آغا خان کو گذشتہ سال صدر آصف علی زرداری نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازا تھا۔
یہ ایوارڈ ان افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے اعلیٰ ترین خدمات انجام دی ہیں۔
آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈیولپمنٹ کی ایگزیکٹو کمیٹی اور اے کے ڈی این انوائرمنٹ اینڈ کلائمیٹ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے شہزادہ رحیم کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایوارڈ کے حوالے سے دیئے گئے اعزاز میں کہا گیا تھا کہ پرنس رحیم آغا خان نے آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک میں اپنے متعدد قائدانہ کردار کے ذریعے ایک چوتھائی صدی سے زائد عرصے تک ایشیا اور افریقہ کے وسائل سے محروم علاقوں میں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی انتھک کوششیں وقف کی ہیں۔
مرحوم شاہ کریم کو آنے والے دنوں میں سپرد خاک کیا جائے گا جس کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا رہی ہیں۔
اس کے فورا بعد 50 ویں امام کی باضابطہ بیعت اور خراج عقیدت کی تقریب منعقد ہوگی۔ تفصیلات بعد میں شیئر کی جائیں گی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے اسماعیلی اداروں کا مطالعہ کرنے والے انٹرفیتھ امریکہ کے بانی اور صدر ایبو پٹیل نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ’مجھے توقع ہے کہ اس وراثت کا تسلسل جاری رہے گا۔‘
وہ ایک بہت بڑا پورٹ فولیو سنبھالیں گے۔ خاندان اور اسماعیلی ادارے حیرت انگیز طور پر امیر ہیں: دولت کا تخمینہ 1 ارب ڈالر سے لے کر 13 ارب ڈالر تک ہے، جس میں ایئر لائنز سے لے کر رئیل اسٹیٹ سے لے کر اخبارات تک کے اثاثے شامل ہیں۔
مرحوم آغا خان نے شاہی خاندان کے ساتھ تعلقات رکھے، ریس کے گھوڑوں کی ملکیت اور نجی جیٹ طیاروں پر پرواز کیں، لیکن انہیں اداروں کی تعمیر اور رفاہی کام کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سراہا جاتا ہے، خاص طور پر ایشیا اور افریقہ میں، جہاں انہوں نے اپنے فرقے سے باہر کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔