تین ماہ قبل شروع ہونے والے اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے بعد سے جنوبی لبنان کے مکینوں کو لبنانی نمبروں سے لبنانی لہجے میں بات کرنے والے لوگوں کی عجیب و غریب فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹیلی فون کرنے والے اپنا تعلق سروے کرنے، امداد تقسیم کرنے یا کسی عوامی ادارے کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق فون کرنے والے قصبوں اور گھروں کے اسرائیلی حملوں کی زد میں آنے سے پہلے ان کے اہل خانہ اور ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
لبنانی سکیورٹی حکام اور حماس کے اتحادی حزب اللہ کا ماننا ہے کہ یہ عجیب و غریب فون کالیں دراصل اسرائیلیوں کی جانب سے کی جا رہی ہیں۔
گذشتہ ہفتے جنوبی لبنان کے گاؤں خیام سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ ام حسین کو ’بینک‘ کی جانب سے کال موصول ہوئی جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ آئیں اور قریبی برانچ سے کچھ رقم لے جائیں۔
لیکن ان کے پوتے حسن شکیر کے مطابق ام حسین کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔
خاتون کے پوتے نے بتایا کہ فون کال ختم ہونے کے فوراً بعد اسرائیلی حملے میں گاؤں میں ان کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔
حالیہ ہفتوں میں جنوبی لبنان میں بھی اسی طرح کے واقعات پیش آئے ہیں جہاں سے حزب اللہ نے سات اکتوبر کے بعد سے حماس کی حمایت میں اسرائیل پر روزانہ حملے کیے۔
اسرائیل نے اس کے جواب میں لبنان کے سرحدی دیہات پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں 190 سے زیادہ لوگوں کی جان گئی۔ حزب اللہ نے جنوب کے دیہاتوں کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ لبنانی نمبروں سے کال کرنے والے لوگوں کو کوئی بھی معلومات فراہم نہ کریں۔
سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ فوج کی انٹیلی جنس اور پولیس ان کالز کی تحقیقات کر رہی ہیں جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ اسرائیل سے شروع ہوئیں جس کا مطلب ہے کہ لبنان کے مواصلاتی نیٹ ورک پر کنٹرول حاصل کیا جا چکا ہے۔
ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل اس سے قبل بھی گھروں میں حزب اللہ کے ارکان کو نشانہ بنانے کے لیے یہ حربہ استعمال کر چکا ہے۔
سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ ایک اسرائیلی حملے سے کچھ دیر قبل ایک نامعلوم شخص نے ایک گھر کے مالک سے پوچھا تھا کہ کیا وہ اور ان کے اہل خانہ گھر پر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی فوج کی ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان فون کالز کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
حزب اللہ کے مطابق اسرائیل نے سرحدی دیہات میں گھروں اور کاروباری اداروں میں سکیورٹی کیمروں کو بھی ہیک کر لیا ہے۔
دسمبر میں حزب اللہ نے کہا تھا کہ اسرائیل اس رسائی کو حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ گروپ نے لبنانی شہریوں پر زور دیا کہ وہ وہ نجی کیمرے انٹرنیٹ سے ہٹا دیں۔
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اسرائیل سے وابستہ کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کے شبے میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا ۔ ان میں سے ایک پر الزام ہے کہ انہوں نے حزب اللہ کے جنوبی بیروت کے مضبوط گڑھ میں گھر میں استعمال ہونے والے وائی فائی نیٹ ورکس سے چھیڑچھاڑ کی۔
ڈیجیٹل حقوق کے گروپ سمیکس کے عابد کتایا نے کہا کہ لبنان میں سویلین مواصلاتی نیٹ ورکس اور سی سی ٹی وی کیمروں کو ہیک کرنا آسان ہے کیوں کہ بنیادی ڈھانچے میں بنیادی حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جاسوسی کی تکنیک میں طویل تاریخ ہے۔ خاص طور پر لبنان میں وہ سرحد پر جاسوس غبارے استعمال کرتا اور علاقے پر نظر رکھنے کے لیے ٹاور بنا رکھے ہیں۔
سات جنوری کو بیروت ہوائی اڈے پر روانگی اور آمد کی سکرینوں پر بھی سائبر حملے کیے گئے۔ میڈیا نے فوٹیج دکھائی جس میں حزب اللہ مخالف پیغامات تھے۔ اس فوٹیج میں سامان کی ترسیل میں استعمال ہونے والی کنویئر بیلٹس دکھائی دے رہی تھیں جو بند ہو چکی تھیں۔
ہوائی اڈے کو ہیک کرنے والوں کا ابھی تک سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ پبلک ورکس اینڈ ٹرانسپورٹ کے وزیر علی حمیح کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہے لیکن یہ بھی تسلیم کیا کہ لبنان میں سائبر سکیورٹی کی مہارت کا فقدان ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔