سائنسدانوں نے پہلی بار نظامِ شمسی سے باہر ایک سیارے کی فضا میں پانی کے بخارات دریافت کیے ہیں جو خلا میں زندگی کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
یہ سیارہ کے ٹو 18 بی کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ زندگی کے لیے موزوں ہو سکتا ہے۔
اس سیارے کی تحقیق پر کام کرنے والے یونیورسٹی آف مونٹریال کے ماہر فلکیات بیورن بینیکے نے کہا: ’یہ دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کرنے کے سلسلے میں، اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہم اکیلے نہیں، ہمارا اب تک کا سب سے اہم قدم ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے مشاہدات اور ہمارے بنائے گئے اس سیارے کے موسمیاتی ماڈل کے مطابق ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ اس سیارے کی فضا میں بخارات ٹھنڈے ہو کر پانی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا ہے۔‘
سائنسدان پرامید ہیں کہ کے ٹو 18 بی پر مزید تحقیق میں ایسے مزید مالیکیول دریافت ہو سکتے ہیں جو زمین پر زندگی کے لیے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں نائٹروجن اور میتھین شامل ہیں۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار ہزار مزید سیاروں کا مشاہدہ کر کے ایسے دیگر سیارے دریافت کیے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گو کہ اس سیارے کو 2015 میں دریافت کیا گیا تھا لیکن نئی تحقیق نے ہی سائنسدانوں کو اس پر پانی کی موجودگی کا یقین دلایا ہے۔
فی الحال موجودہ تکنیکی آلات صرف سیارے کے بنیادی عناصر مثلاً فاصلے، وزن اور درجہ حرارت کا تعین کر سکتے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی کالج لندن میں تیار کیے جانے والے پیچیدہ آلات نے ہبل ٹیلی سکوپ میں موجود مزید ڈیٹا کو استعمال کر کے پانی کے بخارات کے مالیکیولز کو سمجھنے میں مدد کی۔
کے ٹو 18 بی کو سپر ارتھ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ زمین سے دو گنا بڑا ہے اور آٹھ گنا بھاری ہے۔
فی الحال وہ وقت دور ہے کہ کے ٹو 18 بی ماہر فلکیات کو نظر آ سکے، لیکن وہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جب یہ سیارہ اپنے سورج کے ٹو 18 کے گرد گھومتا ہے تو اس کی روشنی اس سیارے کی فضا سے فلٹر ہو کر آتی ہے۔
یہ سیارہ اپنے سورج سے زمین کے ہمارے سورج کی نسبت زیادہ قریب ہے جس کا مطلب ہے کہ اسے مدار پورا کرنے کے لیے صرف 33 روز درکار ہیں۔
مرکزی مصنف ڈاکٹر انجلیوس تسیارس نے کہا: ’یہ ہمارے نظام شمسی سے باہر واحد سیارہ ہے جس کے درجہ حرارت، ماحول اور پانی سے متعلق ہمارے پاس درست معلومات ہیں۔ یقینی طور پر کے ٹو 18 بی زمین کا ہمزاد نہیں ہے کیونکہ یہ سیارہ کافی بڑا ہے اور مختلف ماحولیاتی ترتیب رکھتا ہے۔ یہ ایک مختلف مدار میں گردش کر رہا ہے اس لیے یہ زمین جیسا نہیں دکھائی دیتا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’زندگی کے لیے موزوں سمجھے جانے والے سیاروں کی تلاش بہت دلچسپی کا باعث ہے لیکن ہمیں یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ زمین ہمارا اکلوتا گھر ہے اور نظامِ شمسی سے باہر کے سیاروں کا سفر شاید ناممکن ہے۔‘
گو کہ یہ سیارہ زندگی کے لیے موزوں سمجھے جانے والے زون میں ہے، سائنسدانوں کے مطابق فی الحال موجودہ تکنیکی آلات کی مدد سے اس پر زندگی کے آثار نہیں پائے گئے۔
اس سیارے کے زندگی کے لیے موزوں ہونے کی تصدیق کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ایک سال کی تحقیق کے بعد نیچر آسٹرونومی جرنل میں یہ تفصیلات شائع کرنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس سیارے پر پانی کی موجودگی کم سے کم 0.1 فیصد سے لے کر زیادہ سے زیادہ 50 فیصد تک ہو سکتی ہے۔
تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر انگو والڈمین کا کہنا ہے: ’ہم نہیں جانتے کہ وہاں کتنا پانی ہے لیکن ان ماڈلز میں یہ بات واضح ہے وہاں پر ایک ماحول اور پانی موجود ہے۔‘
محققین یہ نہیں سمجھتے کہ صرف ٹو 18 بی ہی ممکنہ طور پر زندگی کے لیے موزوں سیارہ ہے اور وہ پہلے سے ہی دریافت شدہ چار ہزار اور سیاروں میں اس سے مماثلت رکھنے والی خصوصیات کے ملنے کے لیے پرامید ہیں۔
وہ امید رکھتے ہیں کہ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ جیسی جدید ٹیکنالوجی ہمارے نظام شمسی سے باہر کے مزید رازوں سے پردہ اٹھائے گی۔ یہ خلائی دوربین مارچ 2021 میں لانچ کی جائے گی۔
ڈاکٹر تسیارس نے کہا: ’ہم دوربینوں کی اگلی نسل سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ہم ان کی مدد سے پہلے سے زیادہ رسائی حاصل کر سکیں۔‘
اس رپورٹ میں پریس ایسوسی ایشن کی معاونت شامل ہے۔
© The Independent