آج 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے پاکستانی شہری الیکشن 2024 میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے امیدوار کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔
پاکستان میں ووٹر ٹرن آؤٹ غیرمعمولی کبھی نہیں رہا۔ اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، البتہ سب سے بڑی رکاوٹ ہماری سوچ ہے۔ آئیں اس کا جائزہ لیں۔
سوچ نمبر ایک: اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ کروڑوں کی آبادی والے اس ملکِ خداداد پاکستان میں صرف ایک ووٹ سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا تو معاف کیجیے گا آپ بالکل غلط ہیں۔
2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے بارہ، تیرہ حلقوں میں ہار اور جیت میں ووٹوں کا فرق ایک ہزار ووٹ سے کم تھا یعنی چند سو ووٹوں کا فرق۔
این اے 21 مردان ٹو میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدواروں میں جیت کا فیصلہ 35 ووٹوں نے کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر ووٹ اہم ہے، ہر ووٹ گنا جاتا ہے۔
2000 میں امریکی ریاست فلوریڈا میں ہونے والے انتخابات میں الگور کے حامی 600 سے زیادہ ووٹرز نے حصہ لیا ہوتا تو ایک بالکل مختلف شخص امریکی صدر ہو سکتا تھا۔
سوچ نمبر دو: میچ پہلے سے فکسڈ ہے تو پولنگ سٹیشن جانے کا فائدہ؟
بغیر کوشش کے ہار مان لینا کیا بہتر آپشن ہے؟ اس بارے میں بات اگر شواہد کی بنیاد پر ہو تو بہتر ہے۔
اگرچہ ماضی میں انتخابات میں مداخلت کی بات ہوتی رہی ہے، بعض حلقوں نے اس کا اعتراف بھی کیا لیکن اس کا خاتمہ جمہوری کوشش میں مزید شرکت سے ہے ناکہ خود کو الگ تھلگ کر لینے میں۔
ووٹ ضرور دیں تاکہ جو مداخلت کریں انہیں بھی احساس ہو، کچھ شرم آئے کہ وہ کس حد تک عوامی رائے کو موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پھر جدید ٹیکنالوجی اور چاک و چوبند پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں دھاندلی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
تاہم اگر دھاندلی کرنے والے کوئی آوٹ آف دی باکس طریقہ اختیار کرتے ہیں تو وہ بھی آج کل کے موبائل فون کے دور میں زیادہ دیر چھپا نہیں رہے گا۔
اس مرتبہ تو پاکستان فوج کا سیاست سے دور رہنے کے ببانگ دہل اعلان کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے۔
ماضی کو دیکھتے ہوئے امید کرنا کہ کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی انتہائی مشکل ہے لیکن کرنی ضروری ہے۔
سوچ نمبر تین: ’میں نے آج تک ووٹ نہیں دیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘ معاف کیجیے گا آپ بالکل غلط ہیں۔ اس پر فخر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
پاکستان میں الیکشن کا عمل یقیناً قابل رشک نہیں۔ لیکن بائیکاٹ کوئی آپشن نہیں۔ اسی وجہ سے تمام تر تنقید کے باوجود اس مرتبہ کوئی سیاسی جماعت اس کا بائیکاٹ نہیں کر رہی۔
فائدے اور نقصان کا تعین اس وقت زیادہ بہتر انداز میں ہوسکتا ہے کہ جب آپ نے کسی پراسس میں شرکت کی ہو۔
یہ ایسے ہی ہے کہ اپنے ذمہ کا ٹیکس نہ دیں اور حکومت سے سہولت مانگتے رہیں۔ پانچ سال میں ایک مرتبہ ووٹ نہ دیں اور تمام وقت تنقید کرتے رہیں۔
اس سوچ کے حامل افراد اقلیت میں ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو اور ایک آدھ دوسرے سروے میں بھی یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ تقریباً 80 فیصد پڑھے لکھے لوگ ووٹ ڈالنے کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔
اچھے سیاست دانوں کا انتخاب کرکے ہی آپ سیاست کی بدنامی کا سبب بننے والے افراد کو نکال باہر کرسکتے ہیں۔
اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ورنہ پھر انہیں کو جھیلنے کے لیے تیار رہیں جنہیں ہٹانے کے لیے آپ نے کچھ نہیں کیا۔
مقامی حکومتوں کے غیرفعال ہونے کی وجہ سے فی الحال شہری مسائل کا حل انہیں منتخب نمائندوں کے پاس ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے ہی حرکت میں آئیں اور پولنگ سٹیشن جائیں۔
سوچ نمبر چار: ’میرا ووٹ تو آبائی شہر میں ہے میں اب صرف ووٹ ڈالنے نہیں جاسکتا:‘ معاف کیجیے گا آپ بالکل غلط ہیں۔
یہ آپ کی سستی ہے اور کچھ نہیں۔ جب الیکشن کمیشن چیخ چیخ کر ووٹوں کے اندراج کی درستگی کی اپیلیں کر رہا تھا، ہم نے ووٹ قریبی علاقے منتقل کیوں نہیں کروایا؟ ووٹ کو اہم قومی فریضہ سمجھیں۔
یہ منفی سوچ ہی قطرہ قطرہ دریا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ آج اس سوچ کو بدلنے کا دن اور موقع ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انتخابات میں حصہ لینا جمہوری نظام کی اہم آزادیوں میں سے ایک ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں لوگوں کو یہ حق حاصل ہی نہیں۔ انہیں وجوہات کو بنیاد بنا کر ہر مرتبہ ہم پولنگ سٹیشن جانے سے کتراتے ہیں۔
اسی وجہ سے پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ووٹر ٹرن آؤٹ ویسے ہی قابل رشک کبھی نہیں رہا۔
حالیہ برسوں کے دوران پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 60 لاکھ تھی۔
تاہم الیکشن کمیشن کے 2023 کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعداد اب ساڑھے 12 کروڑتک پہنچ چکی ہے۔
رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں اس اضافے کے باوجود سوال برقرار ہے کہ ان میں سے کتنے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں؟
1988، 1990، 1993، 1997 اور 2002 میں ہونے والے انتخابات کے تاریخی اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اوسطاً 41 فیصد رائے دہندگان کا ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔
2008 میں رائے دہندگان کی تعداد 44.23 فیصد تھی جبکہ 2013 میں یہ بڑھ کر 55.02 فیصد ہو گئی۔
تاہم 2018 میں یہ کم ہو کر 51 فیصد رہ گئی۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اہل ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ووٹ نہ ڈالنے کا انتخاب کرتی ہے۔
ووٹ دینا آپ کا شہری فرض ہے۔ اگر فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے تو کسی تنیجے پر پہنچنے کے لیے خود کو باخبر بنائیں اور اچھے مشورے دینے والوں سے مشورہ کریں۔ مگر ووٹ ضرور کریں۔
اس کالم کو بھی پڑھنا اب چھوڑ دیں اور جائیں براہ مہربانی قومی فریضہ ادا کریں۔ قوم کی تقدیر بدلنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
یہ آپ کا حق ہے۔ ووٹ نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی رائے ترک کر دیں۔ ووٹنگ تبدیلی کا ایک موقع ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔