نو فروری بھی آگئی، اب بھی وہی اکڑفوں؟

اب دعا ہے کہ وہ صبر رنگ لائے اور عوام کو بااختیار خود مختار اور پانچ سالہ ٹرم مکمل کرنے والی جمہوری حکومت مل سکے۔

9 فروری، 2024 کو لاہور میں پاکستان کے عام انتخابات کے ایک دن بعد ایک بچہ جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی تصویر والے پوسٹر کے سامنے سے رہا ہے (عامر قریشی/ اے ایف پی)

تمام تر تنازعات اور حشر سامانیوں کے ساتھ انتخابات تمام ہوئے، جیت کا ہار کس نے پہنا اور  شکست کس کے گلے کا ہار ہوئی یہ اعلانات بھی انہی تنازعات کے تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

الیکشن کے ساتھ جو ہوا سو ہوا لیکن انتخاب کے بعد کہیں بہت سوں کے ساتھ استاد منگو والی نہ ہوجائے ڈر اس سے لگتا ہے۔ اگر استاد منگو کوچوان یاد نہیں تو سعادت حسن منٹو کا افسانہ نیا قانون پڑھیں۔

کہانی مختصراً یہ ہے کہ منگو گھوڑا گاڑی چلاتا تھا اور برصغیر کی انگریزوں سے غلامی کے چھٹکارے کا منتظر تھا۔ منگو کی سواریاں جو بولتی تھیں وہ من و عن ان باتوں پہ یقین کرلیتا تھا، یہاں تک کہ استاد منگو نے سن لیا کہ پہلی اپریل کو نیا قانون آئے گا جو انگریزوں سے آزادی دلائے گا۔

 منگو بیچارہ پہلی اپریل کے انتظار میں پورے مارچ جشن مناتا رہا کہ غلامی کی زنجیر ٹوٹنے کو ہے، یہاں تک کہ پہلی اپریل آگئی۔ استاد منگو کو پہلی اپریل کو انگریز راج سے آزادی کا نیا قانون تو نہ ملا ہاں ایک انگریز مل گیاجسے منگو نے یہ کہہ کر خوب پھینٹی لگائی ’پہلی اپریلکوبھیوہیاکڑفوں۔۔۔اببھیوہیاکڑفوں۔۔۔ابہماراراجہےبچہ‘

ہمارے کیس میں منگو استاد فی الحال جمہور کا سورج ڈھونڈ رہا ہے، وہ اپنے ووٹ کی عزت افزائی ہوتے دیکھ رہا ہے اور انگشت بہ دندان ہے کہ اب تو نو فروری بھی آگئی، اب بھی وہی اکڑفوں۔

جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے متنازعہ نتائج کا اعلان ہو رہا ہے، یہ تحریر اگرچہ انتخابات جیتنے والوں کا انتظار کرسکتی ہے، کون حکومت کا تاج پہنے گا ان کے ناموں کا انتظار بھی کرسکتی ہے مگر وکٹری سٹینڈ پہ کھڑے سیاست دانوں کی منہ دکھائی سے کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ اقتدار میں آنے والی نئی ٹیم سے ہم ایسی کون سی انوکھی توقعات لگا سکتے ہیں جو اس سے قبل کبھی نہیں لگائیں؟ حکومت بنانے والےایسے کون سے نئے چہرے ہوں گے جن سے از سرنو نئی امید وابستہ کرلیں اور پرانے چراغ گُل کردیں؟

جیتنے والوں کو جیت مبارک کہ جمہوریت کے جو بھاشن انہوں نے تیار کر رکھے ہیں اب اگلے کچھ ہفتوں تک اس کے چیدہ چیدہ نکات سے ہم عوام فیضیاب ہوں گے، ہمیں بتایا جائے گا کہ نئے دور کا آغاز ہو چلا ہے، اب پہلے جیسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ لیکن کیا واقعی اس شدید متنازعہ نتائج کے ساتھ نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے؟

روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، ٹیکنالوجی، صحت، بنیادی انسانی حقوق، بنیادی آزادی اور بہتر معیشت یہ تمام ہی وہ معاملات ہیں جن پہ ہر جماعت ملک و قوم کی بہتری چاہتی ہے۔ اور لگ بھگ معمولی تبدیلی کے ساتھ پاکستان کی تمام جماعتیں ایک جیسی پالیسی و پلاننگ رکھتی ہیں۔

 حکومت جنریلی ہو یا جمہوری آج تک کسی نے اقتدار کا تخت سنبھال کر یہ اعلان نہیں کیا کہ عزیز ہم وطنو!آپ کے ننانوے فیصد اعتماد کا شکریہ، دیکھتے جائیں کیسے اب ہم اس ملک و قوم کا بیڑا غرق کریں گے۔ ظاہر ہے  نئی نویلی سلیقہ شعار بہو کی طرح نئی کابینہ کا یہی دعویٰ ہوگا کہ انہیں سب سیٹ کرنا آتا ہے، موقع ملا تو ہر بگڑا کام سنوار دیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

  نئی حکومتی ٹیم بھی گذشتہ حکومتوں کی طرح یقیناً اچھی اچھی پالیسیاں بنائے گی، سرکاری گزٹ پیپر نئی قانونی موشگافیوں سے پھر سجے گا، خوب نوٹی فیکیشنز جاری ہوں گے، بل پاس ہوں گے، گر سر پہ کچھ زیادہ ہی انقلاب کا بھوت سوار ہوگا تو اکا دُکا آئینی ترامیم بھی کرلی جائیں گی۔

حکومتی ٹیم بنانے والوں کے پاس پہلے سو دن کا پلان یقیناً تیار ہوگا، آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے، معاشی اصلاحات کے ڈونگرے بجائیں گے، نئی سٹیٹ بینک پالیسی متعارف ہوگی، تنخواہیں اور پنشن بڑھانے، ٹیکس نیٹ بڑھانے اور کسی انوکھی ترکیب سے قومی خسارہ گھٹانےکے نت نئے خیال پیش کیے جائیں گے۔

 عین ممکن ہے ایک بار پھر حکومتی ارکان، وزیراعظم ہاوس وغیرہ سے بچت کرنے، رات کے وقت کم فانوس روشن رکھنے، گرمی میں چھ کی جگہ چار ائیر کنڈیشن چلانے کی بھی پریس ریلیز جاری ہو۔ بتایا جائے کہ وزیراعظم ہاؤس کے کچن کا خرچہ کم کرنے کے لیے سبزی ترکاری کی فصل لان میں لگائی جائے گی۔

روزمرہ کے چھوٹے بڑے فیصلے اور احکامات دینا منتخب حکومت کا اکلوتا کام نہیں ہوتا۔ عالمی سٹیج پہ قوم کی سمت طے کرنا، جمہوریت کا مقدمہ لڑنا اور یقینی بنانا کہ اقتدار اگلی حکومت تک جمہور کی طاقت سے منتقل ہو، یہ بھی منتخب حکومت کا کام ہے۔

پاکستان ایک طویل جمہوری، سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران سے گزر رہا ہے، عوام چاہتے ہیں کہ بحران سے ہم سب مل کر نمٹیں اسی لیے ووٹ دیا ہے۔ نفرتوں کی سیاست، رقابت اور عداوت پہ مبنی کارروائیاں بند ہوں۔

سینکڑوں کی تعداد میں گلی گلی موجود استاد منگو کو انتظار ہے کہ اب کی بار  فیصلہ سازی اس کے منتخب نمائندے کریں۔ سیاست میں فوج کی دخل اندازی کا مفروضہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔

منگو بیچارے کو امید ہے کہ پارلیمان میں اس جیسے عوام کے ووٹوں سے آئے ارکان کی منڈیاں لگنا بند ہوں، اب کی بار بین الاقوامی تعلقات بناتے ہوئے قوم کی امنگوں کو مدنظر رکھا جائے۔ بات بے بات پارلیمان سے اجازت لی جائے، عوام کی عدالت میں حکومت کی کارکردگی جانچی جائے، وزرا اہل ہوں، تمام منتخب نمائندوں کو برابر سے فنڈز ملیں۔

 نئے قانون، نئی صبح، نئے جمہوری دور کے انتظار میں عوام نے جس تحمل سے کٹھ پتلی نگران حکومت کو جھیلا ہے اور الیکشن کمیشن کی من مانیوں کو سہا ہے اب دعا ہے کہ وہ صبر رنگ لائے اور عوام کو بااختیار خود مختار اور پانچ سالہ ٹرم مکمل کرنے والی جمہوری حکومت مل سکے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ