امریکہ سے باہر موجود افراد بلکہ امریکہ میں بیشتر افراد بھی جنوری ۲۰۱۹ سے پہلے مشعل الیگزانڈر کا نام تک نہیں جانتے ہوں گے۔ وہ ایک انسانی حقوق کی وکیل اور ماہر تعلیم اور 'دی نیو جم کرو' نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ انہوں نے چند مہینے پہلے نیو یارک ٹائمز میں باقاعدگی سے کالم نگاری شروع کی ہے۔ لاکھوں سیاہ وسفید فام امریکیوں کی طرح وہ بھی مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی پیروکار ہیں۔
پچھلے ہفتے نیو یارک ٹائمز کے لیے مضموں کا آغاز انہوں نے مارٹن لوتھر کنگ کی کہانی سے کیا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر ایک ساہ فام عیسائی اور عدم تشدد پر یقین نہ رکھنے والے انسانی حقوق کے داعی تھے جنہوں نے 1968 میں اپنے قتل سے پہلے فیصلہ کیا کہ وہ ویت نام جنگ کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔
مارٹن کو کہا گیا تھا کہ وہ ویت نام تنازعہ پر نرمی برتیں اور اس وقت اس جنگ کی وجہ سے دس ہزار امریکیوں کی جان جا چکی تھی مگر پھر سیاسی اسٹیبلشمنٹ جنگ کے حق میں تھی۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئیرنے یہ جانتے ہوئے کہ جنگ کی خلاف بولنے پر انہیں کمیونسٹ قرار دے دیا جائے گا، انہوں نے پھر اس جنگ کے خلاف آواز اٹھائی۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر مسئلہ وہاں شروع ہوا جب مشعل الیگزانڈر نے اپنی خاموشی توڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ خاموشی امریکہ میں موجود نسل پرستی، دہرے درجے کی شہریت یا صدر ٹرمپ کے حوالے سے نہیں تھی۔ انہوں نے فلسطینیوں کے لیے اپنی خاموشی توڑنے کا فیصلہ کیا۔
الیگزانڈر نے نہ صرف مارٹن لوتھر کنگ کےان عقائد کا ذکر کیا جن کے مطابق اسرائیل کو مشرقی یروشلم، مغربی پٹی، غزہ اور گولان علاقے فلسطین کو واپس کرنے چاہیے بلکہ انہوں نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینوں کے لیے تضحیک آمیز رویے کی بھی بھرپور مذمت کی۔
مارٹن لوتھر کنگ کی ہی طرح مشعل الیگزانڈر "ہمارے وقت کے سب سے بڑے اخلاقی چیلنج" پر خاموش تھیں مگر ان کے مطابق اب اسرائیل اور فلسطین پر اب خاموش رہنا "غداری" ہو گی۔
امریکہ میں موجود اگر اسرائیل کے دوست اور حامی اس مضمون پر خاموش رہتے تھے تو دانش مندی ہوتی۔ راشدہ طالب اورالہان عمر جو کہ اسرائیل کے بائیکاٹ اور پابندیوں کی حامی ہیں نے الیگزانڈر کو کل کا نواب گرداننا تھا جس نے اپنا معاشرتی درجہ اوپر کرنے کے لیے فلسطین کے مسئلہ کا ذکر چھیڑا مگر جس کے پاس نہ تو علم اور نہ ہی سیاسی حمایت ۔ مگر نہیں۔
الیگزانڈر کے مضمون سے آسمان پھٹ پڑا۔ مضمون میں درج خیالات "بھیانک"، غلط اور ممکنہ طور پر یہودیوں سے نفرت اور اسرائیل کی بقا کے لیے "تذویراتی خطرہ"سمجھے گئے۔ ان کے مضمون "حقائق سے روگردانی" تھے، "غلطیوں سے بھرپور بیانیہ" تھا جس نے فلسطین کے تشدد اور دہشت گردی کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ یہ سب اس امر کا اشارہ ہیں کہ اسرائیل کے دوست کتنے ہل کر رہ گئے ہیں کہ اس امریکہ میں ایسی مضامین لکھے جا رہے ہیں جہاں امریکہ-اسرائیل تعلقات کے خلاف بات کرنا ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک ایلن ڈورشوویٹز نے اس مضمون کے خلاف لکھا اور کہا کہ یہ مضمون"اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سےکسی بڑے اخبار میں یہ بہت زیادہ یکطرفہ، غلط معلومات پر مبنی اور تاریخی طور پر غلط ہے۔"
ڈورشوویٹز نے اپنے مضمون میں الیگزانڈر کے خلاف یکے بعد دیگرے شدید تنقیدی نشتر چلائے۔ ڈورشوویٹز کے مطابق الیگزانڈر نے فلسطینی مکانات کو مسمار کرنے پر تنقید کی مگر "یہ بتانا بھول گئی کہ یہ مکان ان دہشت گردوں کے ہیں جو یہ یہودی بچوں، خواتین اور مردوں کو قتل کرتے ہیں۔" ڈورشوویٹز نے مزید کہا کہ الگیزانڈر نے غزہ میں اموات پر افسوس کا اظہار کیا مگر" یہ نہیں بتایا کہ ان میں کتنی اموات اس وجہ سے ہوئی کہ ان افراد کو حماس انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کرتے ہے اور ان کے پیچھے چھپ کر اسرائیل پر میزائیل داغتا ہے۔"
مگر حماس کی طرف سے یہ گولہ باری اتنی نشانے سے چوکتی ہے کہ امریکی، بالخصوص ڈیموکریٹک پارٹی میں موجود لوگ، اس پر سوال اٹھانا شروع ہو گئے ہیں کہ اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین میں آخر ہو کیا رہا ہے۔
ڈورشوویٹز نے اپنے مضمون میں ایک دفعہ بھی اسرائیل کی طرف سےمغربی پٹی میں عرب فلسطینوں سے زمین چھین کر صرف اور صرف یہودیوں کیلئے بڑے پیمانے پر کی جانے والی آباد کاری کا ذکر نہیں کیا۔
کیا واقعی ہی اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ مہم جس کی الیگزانڈر اور اراکین کانگریس راشدہ طالب اور الہان عمرحمایت کرتے ہیں اسرائیل کی قانون حیثیت کو نقصان پہنچ رہا ہے؟ یا اسرائیل خود اس زمین پر قبضہ کر کے جو اس کی ہے ہی نہیں سےاپنی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچا رہا ہے؟
الیگزانڈر کے مضمون کے بعد اس ردعمل کی اصل وجہ الیگزانڈر کا مضمون نہیں بلکہ ڈیموکریٹک جماعت کی امریکہ کی اسرائیل کے لیے خود ساختہ اورجانبدار حمایت کےخلاف پیدا ہونے والی خطرناک دراڑیں اس ردعمل کی اصل وجہ ہیں۔
سفید فام امریکی پرامریکہ-اسرائیل تعلقات کے خلاف بولنے پر یہ الزام لگانا کہ وہ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں بہت آسان ہے۔ مگر ایک سیاہ فام امریکہ کے اوپر یہ الزام لگانا اتنا آسان کیونکہ اس الزام کی نوعیت بھی نسل پرستی پر مبنی ہوگی۔
اور الیگزانڈر نے یہی اپنے مضمون میں لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ اگر امریکہ کو مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی بجائے اس کے پیغام کی تقدیس کرنی ہے تو "ہمیں اسرائیل کی زیادتیوں پر مذمت کرنی ہوگی۔ اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی قوانین کی بار بار خلاف ورزی، مغربی پٹی، مشرقی یروشلم اور غزہ پر قبضہ، مکانات کو مسمار کرنا اور زمینوں پر قبضہ کرنا یہ سب اسرائیل کی زیادتیاں ہیں۔ ہمیں فلسطینوں کے ساتھ چیک پوسٹوں پر ناروا سلوک اور گھروں کی بےجا تلاشی کے خلاف آواز اٹھانا ہو گی۔"
الیگزانڈر نے مزید لکھا ہے کہ "امریکیوں کو امریکی حکومت کی جانب سےاسرائیل کو دی گئی امداد پر سوال اٹھانا چاہیے کیونکہ اس امداد نے اسرائیلوں زیادتیوں کو تقویت دی ہے اوراس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ غزہ میں مارے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے 38 بلین ڈالرز کی فوجی امداد بھی اسرائیل کو دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔"
اس میں شک نہیں کہ اس مضمون میں عمومی غلطیاں ہیں کیونکہ تکنیکی طور پر غزہ اب مقبوضہ نہیں ہے کیونکہ اسرائیل نے 2005 میں یہاں آبادکاری روک دی تھی۔
مگر غزہ کی پٹی اقتصادی و عسکری محاصرے میں ہے، اس کی زمینی و ساحلی سرحدیں بند ہیں اورجب بھی حماس اپنے نشانے سے چوکنے والے میزائیل داغتا ہے تو اسرائیل شدید بمباری اور شیلنگ سے علاقے کو نشانہ بناتا ہے۔ اس سب کو مدنظر رکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ قبضہ ہی ہے۔
جیسا کہ الیگزینڈر نے کہا کہ "اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف اسرائیل کا فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی مکانات میں واپسی پر بات کرنے سے انکار کرنے کو ہمیں برداشت نہیں کرنا چاہیے۔" مگر الیگزانڈر نے یہ نہیں بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو ماننا ضروری نہیں اور مغربی پٹی اور غزہ میں موجود بہت کم فلسطینی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی جائیداد جو کہ اب اسرائیل کا حصہ بن چکی ہے اسے واپس لے سکیں گے۔
الیگزانڈر کے مضمون پر امریکہ اور اسرائیل میں موجود متعدد ناقدین یہ جانتے ہیں کہ یہ مضمون کتنی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
وہ یہ شکایت کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ اندوہناک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شام، عراق، چیچنیا اور کردستان میں ہو رہی ہیں۔ یہ بات صحیح ہے مگر اسرائیل کا امریکہ کا اتحادی ہونا سب کچھ تبدیل کر دیتا ہے۔ شامی، عراقی اور بیشتر عرب ڈکٹیٹر، یوکرائین میں روسی اور کردستان میں ترک یہ تو کہتے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی سے نمٹ رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ وہ ہمارے ترجمان ہیں۔
مگر اسرائیلوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ بالکل ہمارے جیسے ہیں اور ہماری طرح جمہوریت اور آزادی کےداعی ہین اور اسرائیل اور امریکہ جدا نہیں رہ سکتے۔ اور اس سب کے بعد وہ فلسطینیوں کے ساتھ وحشت سے پیش آتے ہیں، ان کے ملک پر قابض ہیں اورہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم خاموش رہیں۔
الیگزانڈر نے اپنے مضمون میں بلیک میل کے طور پر استعمال کئے جانے والے "یہودیوں سے نفرت" کے راگ کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ راگ تاریخی طور پر امریکی سیاستدانوں، سفارت کاروں، صحافیوں اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ Canary Mission کے نام سے ویب سائٹ نے ایک خوف پھیلا رکھا ہے کہ اگر فلسطین کے حامی طالب علم اور اساتذہ اور مقامی امریکی قانون سازی اسرائیل کی اشیا کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو اس سے امریکی شہریوں کو نقصان ہوگا۔اس ویب سائٹ کے خلاف بھی غصہ پایا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے ان بائیکاٹ مہم کے خلاف قانون سازی کو جلد بازی میں پاس کرانے کی کوشش کی مخالفت برنی سانڈرز اور ان کے ساتھی کر رہے ہیں۔ برنی سانڈرز کے مطابق جو "خاموشی" الیگزانڈر نے مشرق وسطی پر توڑی ہے اس سے امریکہ میں آزادی اظہار رائے کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
اور اس طرح ہم اسرائیل کے حامیوں کی جانب سے الیگزانڈر کو خاموش کرانے کی ایک عجیب کوشش دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ الیگزانڈر کو بتا رہے ہیں کہ اگر مارٹن لوتھر کنگ آج زندہ ہوتے تو وہ کیا کہتے۔ وہ اسے بتاتے ہیں کہ وہ صہیونی تھے اور اس کے مضمون میں موجود بیانیے کے مخالف ہوتے۔ تو اب ایک سیاہ فام شعبہ تعلیم سے وابستہ خاتون کو بتانا پڑے گا جس شخص کی وہ تقلید کرتی ہے اس کے خیالات کا کیا مطلب تھا۔
اور اگر امریکی یہودی برادری کے آزاد خیال لوگوں کو اسرائیل کی مذمت کرنے پر"خود سے نفرت کرنے والے یہودی" کہا جاتا ہے تو پھر الیگزانڈر کیا ہوئی؟