وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغان امن مذاکرات کے سلسلے میں بھرپور کوشش کی، لیکن امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ نہ ہوسکا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں ہونے والے انتخابات میں طالبان نے حصہ نہ لیا تو یہ بڑی بدقسمتی ہوگی۔
طورخم ٹرمینل توسیعی منصوبے کی افتتاحی تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں وزیراعظم نے کہا: ’پاکستان کے اختیار میں جو کچھ تھا، ہم نے پوری کوشش کی۔ طالبان رہنماؤں کو قطر پہنچایا۔ امریکہ سے مذاکرات میں صرف طالبان بیٹھے، ہم نے شرکت نہیں کی۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ مذاکرات کہاں تک پہنچے، اگر پتہ ہوتا کہ رکاوٹ آرہی ہے تو ہم اس میں کردار ادا کرتے۔‘
عمران خان نے مزید کہا: ’ہماری کوشش یہ تھی کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوجائے۔ ڈیل سائن ہونے والی تھی، پھر ہم نے ان سے ملنا تھا۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ طالبان کو اور افغان حکومت کو بھی اکٹھا کیا جائے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ اگر (حالیہ) الیکشن میں طالبان نے حصہ نہ لیا تو یہ بڑی بدقسمتی ہوگی۔‘
واضح رہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات 28 ستمبر سے شروع ہونے جارہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ طورخم بارڈر سے پورے ہفتے 24 گھنٹے آمدورفت ممکن ہوگی۔ سرحد کھلتے ہی تجارت میں 50 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برآمدات اور درآمدات کے تاریخی خسارے کی وجہ سے رویپہ گرا، جس سے سب چیزیں مہنگی ہوئیں۔
اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’اپوزیشن کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ این آر او دے دیں۔ پرویز مشرف نے جن دونوں لیڈروں کو این آر او دیا وہ آج جیل میں ہیں۔ ہمیں اُس دور کے کیسوں پر بلیک میل کیا جا رہا ہے جو دونوں نے ایک دوسرے پر بنائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’بدقسمتی سے جس اپوزیشن کا کوئی نظریہ نہ ہو وہاں جمہوریت صحیح معنوں میں نہیں چلتی۔ اگر آج احتساب نہ کیا گیا تو یہ ملک ہی نہیں چلنے دیں گے۔‘
’کشمیر سے کرفیو ہٹانے تک بھارت سے بات چیت نہیں ہوگی‘
عمران خان نے خود کو ’کشمیر کا سفیر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’جب تک بھارت اپنے زیرانتظام کشمیر میں کرفیو نہیں ہٹاتا اور آرٹیکل 370 کو واپس نہیں لیتا کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔‘
وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ’اگر یہاں سے کوئی کشمیر میں داخل ہوا تو وہ پاکستان اور کشمیریوں دونوں کا دشمن ہوگا۔ اس سے بھارت کو موقع ملے گا اور وہ کہے گا کہ پاکستان سے دہشت گرد داخل ہوئے۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن بھارت میں نارمل حکومت نہیں ہے۔ ’وہاں ہندو انتہا پسند تنظیم نے قبضہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی ساری پالیسی پاکستان سے نفرت کی ہے۔‘
وزیراعظم نے گھوٹکی میں پیش آنے والے واقعے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ’اقوام متحدہ میں خطاب کے موقع پر گھوٹکی کا واقعہ پیش آیا۔ میرے دورہ امریکا کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی گئی۔‘
وزیراعظم عمران خان کی آئندہ پیر کو امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات متوقع ہے، جہاں وہ افغانستان اور کشمیر سے متعلق معاملات اٹھائیں گے۔