پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ان کی جماعت نے ایک حالیہ اجلاس کے دوران بانی رہنما اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو ایک بار پھر پارٹی کا صدر بنانے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔
مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کے مطابق قرارداد میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سال 2017 میں کیسے نواز شریف کو ’سازش کے ذریعے جبری طور پر مسلم لیگ ن کی صدارت سے ہٹایا گیا۔‘
ایسی صورت حال میں مبصرین کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب ملک میں عام انتخابات ہو چکے ہیں اس کے بعد جماعت کی جانب سے ایسا فیصلہ سامنے آنے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
نواز شریف کے پارٹی سنبھالنے سے کیا ن لیگ کے بیانیے کو تقویت مل سکے گی؟ کیا ن لیگ میں اختلافات ہیں؟ کیا یہ مسلم لیگ ن کا پہلے سے طے شدہ فیصلہ تھا؟
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کے بیانیے کی تقویت کا مسئلہ اتنا اہم نہیں جتنا پارٹی کی تنظیم سازی، رہنمائی اور اسے پھر سے متحرک کرنے کا ہے۔‘
عرفان صدیقی کے مطابق: ’شہباز شریف کے وزیراعظم بننے اور مریم نواز کے وزیر اعلی بننے کے بعد نواز شریف کو پہلے کی طرح پارٹی سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور جماعت کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس 11 مئی کو لاہور میں منعقد ہو گا۔‘
ان کے مطابق ’گذشتہ دو سے تین ماہ کے عرصے میں پارٹی کی تنظیم نو کرنے، کارکنان سے ملنے، لوگوں سے رابطے اور پارٹی کے بیانیے کو مضبوط بنانے سے متعلق کام کرنے کے سوچ سے نواز شریف کو آگاہ کیا جاتا رہا۔‘
عرفان صدیقی نے کہا ’شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنانے کا انتظام مجبوری کے تحت کیا گیا تھا کیونکہ نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ اچانک نہیں ہوا بلکہ وہ یہ بات اس سے قبل کہہ بھی چکے تھے کہ پارٹی میں اس فیصلہ پر سوچ پائی جاتی ہے۔‘
پارٹی صدارت سنبھالنے سے غلطیوں کو درست کرنا نامناسب خیال؟
صحافی سرل المیڈا مسلم لیگ ن کے اس فیصلہ کو عام اصلاح کے طور پر دیکھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تکنیکی طور پر پارٹی صدر کو منتخب وزیر اعظم نہیں ہونا چاہئے، اس لیے یہ محض ایک عام اصلاح ہے۔‘
سرل المیڈا نے کہا ’بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے پچھلے کئی سالوں میں جو کچھ کیا ہے وہ نواز شریف کا براہ راست فیصلہ ہے یا ان کی منظوری سے کیا گیا ہے۔ لہذا یہ خیال نامناسب ہے کہ پارٹی کی صدارت سنبھالنے سے وہ ان غلطیوں کو درست کریں گے جو انہوں نے پارٹی سرپرست کے طور پر کی ہیں۔‘
سرل کے مطابق: ’نواز شریف نے بنیادی طور پر یہ ظاہر کیا ہے کہ فوج کے ساتھ سیاسی جگہ کے لیے لڑنے کی ان کی سیاسی جبلت ان کے خاندان کے اقتدار میں رہنے کی خواہش سے کم ہے۔ بیانیے کی سیاست کے دور میں ن لیگ کی سرپرستی کی سیاست ناپید ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔‘
’حکومت اور پارٹی کے عہدے علیحدہ ہونے چاہئیں‘
صحافی حامد میر نے مسلم لیگ ن کے اس فیصلہ کو سراہا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ ایک بہترین اقدام ہے۔ نواز شریف کو چاہئیے کہ پارٹی کو جمہوری بنیادوں پر منظم کریں۔ حکومت اور پارٹی کے عہدے علیحدہ ہونے چاہئیں۔‘
’مسلم لیگ ن کی پیش بندی‘
اس حوالے سے صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ ’مسلم لیگ ن کا یہ اقدام پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور مخالفت میں دو گروپ بنانے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔‘
عاصمہ شیرازی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’نواز شریف کے پارٹی سنبھالنے سے ن لیگ کے بیانیے کو تقویت ملنے سے بڑی بحث ’ن لیگ کا کیا بیانیہ ہے‘ کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عاصمہ شیرازی کے مطابق ’ماضی میں جماعت کا نعرہ ’ووٹ کو عزت دو‘ رہا ہے۔ ان کی جماعت پر اس وقت یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ کیا ن لیگ واقعی سویلین سپریمیسی پر یقین رکھتی ہے؟ جبکہ ان کی حکومت ہائبرڈ پلس میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر نواز شریف پارٹی قیادت سنبھالتے ہیں تو پارٹی کو بیانیہ بنانے میں تقویت مل سکتی ہے اور یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگا یا جمہوریت کی حمایت میں ہو گا۔‘
عاصمہ شیرازی نے نواز شریف کو پارٹی قیادت ملنے کی وجوہات سے متعلق سوال پر کہا کہ ’جماعت میں اس وقت اندرونی اختلافات نہیں ہیں۔ ن لیگ نے ہمیشہ سے پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور مخالف دو گروپ رکھے ہیں۔ اس وقت بھی ایسے ہی دو گروپ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ مسلم لیگ ن کی پیش بندی نظر آ رہی ہے۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق: ’سابق وزیر اعظم کو پارٹی صدارت پر واپس لانا یہ طے شدہ بات ہی ہوگی کیونکہ انہیں اس عہدے سے ’اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہٹایا گیا تھا تاکہ پارٹی کو کمزور کیا جا سکے۔
’ن لیگ کا یہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے تاکہ وہ وقت آنے پر دوسرے گروپ کے طور پر سامنے آ سکیں اور پارٹی کو متحرک کر سکیں۔ اس فیصلہ کی جڑیں اسی فیصلے میں ہیں جو سپریم کورٹ نے ان کے خلاف دیا تھا۔‘