پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 24 نومبر کے احتجاج کے لیے تیاریاں جاری ہیں اور خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق احتجاج کے راستے میں حائل ممکنہ رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے پورا بندوبست کر لیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق ’جعلی حکومت‘ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی حماقت نہ کرے کیونکہ ہم پہلے بھی رکاوٹیں عبور کر کے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کنٹینرز عوام کے جوش و جذبے کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔‘
خیبر پختونخوا حکومت اور پارٹی کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
گذشتہ روز احتجاج کے حوالے سے پشاور میں پی ٹی آئی لیڈرشپ کے ایک اجلاس کی سربراہی بھی بشریٰ بی بی نے کی، جس کی تصدیق خیبر پختونخوا حکومت کی مشیر اور بشریٰ بی بی کی قریبی ساتھی مشال یوسفزئی نے کی ہے۔
مشال یوسفزئی سے جب پوچھا گیا کہ کیا بشریٰ بی بی احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے اجلاس اور دیگر منصوبہ بندی کر رہی ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ ’ہاں (وہ منصوبی بندی کر رہی ہیں)۔‘
تاہم بشریٰ بی بی کس قسم کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں اس کی مزید تفصیلات مشال یوسفزئی نے پیش نہیں کی۔
اسی حوالے سے مشال یوسفزئی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ عمران خان نے 24 نومبر کے پر امن احتجاج کے لیے پورا لائحہ عمل بشریٰ بی بی کو دے رکھا ہے۔
پوسٹ میں مزید لکھا گیا کہ ’پارٹی کی گراس روٹ لیول تک لائحہ عمل پہنچ چکا ہے اور جو جو عمران خان نے اڈیالہ جیل میں بشریٰ بی بی سے کہا تھا، حرف بہ حرف باہر پہنچ چکا ہے۔‘
مشال نے مزید لکھا کہ ’اس وقت بشریٰ بی بی جو بھی کر رہی ہیں، عمران خان کے احکامات اور ہدایات کے مطابق کر رہی ہیں اور یہ سیاست نہیں جہاد ہے۔‘
مشال کے مطابق: ’بشریٰ بی بی کی سیاست میں انٹری کی تمام باتیں من گھڑت ہیں۔ وہ عمران خان کی اہلیہ ہونے کے ناطے تمام فرائض پورے کر رہی ہیں ۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ خان صاحب کا پیغام اور دیا گیا لائحہ عمل ان کے احکامات کے مطابق بشریٰ عمران خان کے ذریعے من و عن پارٹی تک پہنچ چکا ہے۔‘
پی ٹی آئی نے اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں احتجاج کی کال دی تھی اور مظاہرے کی قیادت وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کر رہے تھے۔
تاہم اس وقت عمران خان اور بشریٰ بی بی جیل میں تھے لیکن بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد اب 24 نومبر کا احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ احتجاج ماضی سے الگ ہو گا؟ اور کیا 24 نومبر کے احتجاج کے لیے بشریٰ بی بی کی منصوبہ بندی کامیاب ثابت ہو سکتی ہے؟
فرزانہ علی سینیئر صحافی وتجزیہ کار اور پشاور میں آج نیوز کی بیورو چیف ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بشریٰ بی بی کے سامنے آنے کی وجہ کارکنان کا اعتماد بحال کرنا ہے۔
فرزانہ علی نے بتایا کہ ’پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے اسلام آباد جلسے میں کارکنان نے علی امین گنڈاپور پر تنقید کی تھی اور ان کے حوصلے پست ہوئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس مرتبہ پنجاب کو عمران خان کی بہن علیمہ خان نے سنبھالا ہے جب کہ خیبر پختونخوا بشریٰ بی بی کی ذمہ داری ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم فرزانہ علی کے مطابق بشریٰ بی بی کے کچھ باتیں حقائق کے منافی ہیں، جن میں ایک پی ٹی آئی کے ہر ایم این اے کو 10 ہزار اور ایم پی اے کو ہزار کارکنان لانے کا ہدف دیا جانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اتنی بڑی تعداد لانا ممکن نہیں کیونکہ یہ تو پھر لاکھوں میں بنتے ہیں جبکہ کچھ پارٹی رہنماؤں کے مطابق عمران خان کے آخری جلسے میں بھی خیبر پختونخوا سے 10 ہزار تک کارکنان نہیں گئے تھے۔‘
فرزانہ علی کے خیال میں بشریٰ بی بی کی منصوبہ بندی کی کامیابی یا ناکامی احتجاج کا نتیجہ نکلنے کے بعد پتا چلے گا۔
’احتجاج کے شرکا کو دیکھ کر ہی اس پر تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔‘
سینیئر صحافی و تجزیہ کار پشاور میں سما نیوز کے بیورو چیف محمود جان بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بشریٰ بی بی کی موجودگی پارٹی کے لیے مجبوری ہے کیونکہ ان کے لیے پشاور محفوظ جگہ ہے۔
تاہم محمود جان کے مطابق ان کی یہاں موجودگی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بشریٰ بی بی کی وجہ سے پوری پارٹی متحد ہو جائے گی کیونکہ پارٹی کے اندر جو اختلافات پہلے سے ہیں وہ اب بھی موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پارٹی کے اندر مختلف گروہ اب بھی موجود ہیں اور 24 نومبر کا احتجاج بھی اس مرتبہ عمران خان کی بہن علیمہ خان نے کیا ہے اور کسی پارٹی رہنما کی طرف سے نہیں کیا گیا ہے۔‘
محمود کان بابر کے مطابق: ’احتجاج کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار پر کسی حد تک عمل ممکن ہو سکے گا کیونکہ خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کارکن اب بھی جیلوں میں ہیں اور علی امین گنڈاپور سے ناراض لوگ شاید بشریٰ بی بی کے کال پر نکل آئیں۔‘