ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سال ایشیا بھر میں آنے والی ہیٹ ویو نے انسانوں کے پیدا کردہ ماحولیاتی بحران کے باعث مزید شدت اختیار کر لی ہے۔
اپریل کے آغاز سے اب تک ایشیا کے درجنوں ممالک میں انڈیا سے لے کر فلپائن تک میں ریکارڈ درجہ حرارت دیکھا گیا ہے جس کی وجہ سے سکول بند ہو چکے ہیں اور پورے خطے میں فوری طور پر صحت سے متعلق انتباہ جاری کیا گیا ہے۔
یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب ایشیا میں اربوں افراد کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور درجنوں افراد جان سے گئے ہیں۔
اب ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن (ڈبلیو ڈبلیو اے) کے سائنس دانوں کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ تیل، کوئلے اور گیس کو جلانے سے پیدا ہوئے آب و ہوا کے بحران کے بغیر فلپائن میں اس سال ہیٹ ویو ’تقریبا ناممکن‘ اور جنوبی اور مغربی ایشیا میں انتہائی کم ہوتی۔
گذشتہ ماہ اپریل عالمی سطح پر ریکارڈ پر سب سے گرم اور مسلسل 11 واں مہینہ تھا جس نے اس ریکارڈ کو توڑا۔
کئی ایشیائی ممالک میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا، فلپائن اور بنگلہ دیش نے سکول بند کر دیے۔
ہیٹ ویو کی وجہ سے درجنوں اموات اور طویل خشک سالی کی بھی اطلاعات ہیں۔
فلپائن میں ایک 300 سال پرانے قصبے کے کھنڈرات اس وقت سامنے آئے جب ایک ڈیم خشک ہو گیا اور ویتنام میں پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے لاکھوں مچھلیاں مر گئیں۔
انڈیا میں درجہ حرارت 46 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا اور ہیٹ ویو کی وجہ سے پانچ افراد جان سے گئے۔
دریں اثنا، میانمار، لاؤس، ویتنام میں اپریل کے گرم ترین دن کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، اور فلپان کے عوام نے اپنی اب تک کی گرم ترین رات گزاری۔
ہیٹ ویو کی وجہ سے تھائی لینڈ میں 30 سے زیادہ اور بنگلہ دیش میں 28 اموات ریکارڈ کی گئیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ نقصانات اصل کی نسبت بہت کم ہیں کیونکہ گرمی سے ہونے والی اموات اور اس کے اثرات بہت کم رپورٹ ہوئے۔
سائنسدانوں نے موسم کے اعداد و شمار اور آب و ہوا کے ماڈلز کا مطالعہ کیا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کس طرح انسانوں کی پیدا کردہ گرمی نے ایشیا میں انتہائی درجہ حرارت کو متاثر کیا ہے۔
انہوں نے آج کی آب و ہوا کا موازنہ تقریباً 1.2 سی گلوبل وارمنگ کے ساتھ، ٹھنڈی پری انڈسٹریل دور کی آب و ہوا کے ساتھ کیا۔
اس تجزیے میں ان ادوار پر توجہ مرکوز کی گئی جب گرمی دو خطوں میں سب سے زیادہ خطرناک تھی: مغربی ایشیا بشمول شام، لبنان، اسرائیل، فلسطین اور اردن میں زیادہ سے زیادہ یومیہ درجہ حرارت کا تین دن کا اوسط، اور فلپائن میں روزانہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کا 15 دن کا اوسط۔
سائنس دانوں نے قدرتی طور پر پیدا ہونے والے آب و ہوا کے رجحان ایل نینو کے ممکنہ اثر کا بھی تجزیہ کیا جس سے اکثر ایشیا میں زیادہ گرمی ہوتی ہے۔
اس مطالعے میں جنوبی ایشیا کے ایک خطے کے تاریخی موسمی اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس میں انڈیا، بنگلہ دیش، میانمار، لاؤس، ویتنام، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا شامل ہیں۔
مغربی ایشیا میں، جسے مشرق وسطیٰ کے نام سے جانا جاتا ہے، سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ اپریل میں 40 ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت والی ہیٹ ویو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے بڑھتی جا رہی ہیں۔
آج کی آب و ہوا میں، 1.2 سی درجہ حرارت کے ساتھ ، اسی طرح کی ہیٹ ویو ہر دہائی میں تقریباً ایک بار آنے کی توقع کی جاتی ہے، (لیکن) تقریباً پانچ گنا زیادہ آنے اور 1.7 ڈگری سیلسیس زیادہ گرم ہونے کا امکان ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ مستقبل میں مغربی ایشیا میں انتہائی درجہ حرارت مزید زیادہ اور شدید ہوسکتا ہے۔ اگر درجہ حرارت دو ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے، جیسا کہ توقع کی جاتی ہے، تو اسی طرح کی ہیٹ ویو ہر پانچ سال میں ایک بار آئے گی اور مزید ایک ڈگری سیلسیس گرم ہو گی۔
مغربی ایشیا میں زیادہ درجہ حرارت پر ال نینو کا کوئی اثر نہیں پایا گیا۔
فلپائن میں النینو کے دوران اسی طرح کی ہیٹ ویو ہر 10 سال میں ایک بار اور النینو کے بغیر دیگر 20 سالوں میں ایک بار آنے کی توقع ہے۔
سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ انسانوں کی پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلی کے بغیر اس طرح کا واقعہ ال نینو کے حالات میں بھی تقریبا ناممکن ہوتا۔
مجموعی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں نے اس سال ہیٹ ویو کی شدت میں ایک ڈگری سیلسیس کا اضافہ کیا ہے جبکہ ال نینو نے ہیٹ ویو کو مزید 0.2 ڈگری سیلسیس گرم کیا۔
جنوبی ایشیا میں ہر 30 سال میں ایک بار اسی طرح کی ہیٹ ویو کا امکان ہے۔ تاہم، تاریخی موسمی اعداد و شمار کے مطابق، موسمیاتی بحران کی وجہ سے ان کے تقریبا 45 گنا زیادہ آنے اور 0.85 ڈگری سیلسیس گرم ہونے کا امکان ہے۔
تاریخی موسمی اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایل نینو حالات کے دوران اسی طرح کی ہیٹ ویو کا امکان دوگنا ہوتا ہے۔
مطالعے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح آب و ہوا کا بحران ایشیا میں غربت اور جنگ کے اثرات کا سامنا کرنے والوں کی زندگی انتہائی مشکل بنا رہا ہے۔
غزہ میں 17 لاکھ بے گھر افراد میں سے اکثر دیسی ساختہ ایسے خیموں میں رہ رہے ہیں جن میں ہیٹ ٹریپ ہو جاتی ہے اور انہیں صحت کی سہولیات، پینے کے صاف پانی اور ٹھنڈا رہنے کے آپشنز تک محدود رسائی حاصل ہے۔
امپیریل کالج لندن میں کلائمیٹ سائنس کے سینیئر لیکچرر ڈاکٹر فریڈریک اوٹو کا کہنا ہے کہ ’ہیٹ ویو ہمیشہ آتی رہی ہے۔
تیل، گیس اور کوئلے کے اخراج کی وجہ سے پیدا ہونے والی اضافی گرمی کے نتیجے میں بہت سے لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔‘
جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں لاکھوں افراد جو غیر روایتی گھروں میں رہتے اور باہر کام کرتے ہیں، جیسا کہ کسان، تعمیراتی کارکن اور پھیری والے شدید گرمی سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
یونیسیف کے ایک ترجمان نے پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی کہ اس موسم گرما میں 24 کروڑ 30 لاکھ بچوں کو گرم اور طویل ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے انہیں ’گرمی سے متعلق متعدد بیماریوں اور یہاں تک کہ موت‘ کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
سائنس دانوں نے درجہ حرارت کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے ہیٹ ایکشن پلان اور کاربن کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی میں تیزی سے کمی کا مطالبہ کیا ہے۔
© The Independent