پاکستان کے سموگ میں ڈوبے شہر لاہور میں اتوار کو ہوا کے معیار میں دو ہفتے کے بعد پہلی بار کچھ حد تک بہتری آئی اور یہ ’خطرناک‘ کی سطح سے نیچے آ گئی ہے۔
ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور میں آج ایئر کوالٹی 241 کی اوسط پر پہنچ گئی جو اب بھی ’بہت غیر صحت بخش‘ ہے لیکن 300 کی ’خطرناک‘ سمجھی جانے والی بلند ترین سطح سے کم ہے۔
اسی طرح پی ایم 2.5 ذرات کی سطح بھی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے قابل قبول معیار سے 10 گنا زیادہ ہے۔
ایک کروڑ 40 لاکھ کی آبادی والے لاہور، جو انڈیا کی سرحد کے قریب ہے، میں 14 نومبر کو اے کیو آئی 1110 کی بلند ترین سطح پر رہا، جو ایک ریکارڈ ہے۔
پنجاب میں جہاں پاکستان کی 24 کروڑ آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ رہتا ہے، صوبائی حکومت نے چھ نومبر کو بڑے شہروں میں سکول بند کر دیے گئے تھے، بعدازاں تعلیمی اداروں کو 24 نومبر تک بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
صوبائی حکومت نے ’گرین لاک ڈاؤن‘ کے تحت جنوری تک سکولوں میں کھلی فضا میں تمام کھیلوں پر پابندی لگا رکھی ہے اور آلودگی پھیلانے والے رکشوں، باربی کیو اور تعمیراتی مقامات پر بھی سخت کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔
صوبہ پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے 16 نومبر کو سموگ کے باعث لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب محکمہ صحت پنجاب کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں گذشتہ 30 روز کے دوران سانس کی تکلیف میں مبتلا 19 لاکھ مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔
دمے کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 14ہزار، امراض قلب میں 13 ہزار پانچ سو، فالج کے پانچ ہزار سے زائد جبکہ آشوب چشم کے 10 ہزار چار سو سے زائد مریض رپورٹ ہو چکے ہیں۔
سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد کا تعلق لاہور سے ہے جہاں سانس کی تکلیف کے ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہو چکے ہیں۔
گذشتہ 30 دن کی اس رپورٹ میں صرف سرکاری ہسپتال شامل ہیں جبکہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کے لیے جانیوالے مریضوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
شہر کے مضافات میں کسانوں کے موسمی فصلوں کو جلانے کے عمل سے بھی زہریلی ہوا پیدا ہوتی ہے، جس کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ فالج، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کے سرطان اور سانس کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔