لاہور: سموگ کا اصل ذمے دار جلنے والی فصلوں یا دہلی کے بجائے کون ہے؟

کراچی میں تو لاہور سے زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں، زیادہ دھواں ہے، زیادہ آلودگی ہے، تو وہاں آخر اب تک سموگ کیوں نہیں شروع ہوئی؟

آپ نے اپنی گاڑی کی ایمیشن انسپیکشن کب کروائی تھی؟

یہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟ میں نے تو آج تک نہیں کروائی۔

امریکہ اور برطانیہ قسم کے ملکوں میں سالانہ بنیاد پر گاڑیوں کا یہ چیک اپ لازمی ہے، اسی کی بنیاد پہ آپ کا لائسنس ری نیو ہوتا ہے اور اُدھر شناختی کارڈ نہیں ہوتا، لائسنس ہی آپ کا شناختی کارڈ ہوتا ہے ۔۔۔ تو اگر گاڑی ماحولیاتی لحاظ سے فٹ نہیں، کوئی دھوئیں قسم کی چیز مار رہی ہے تو آپ سوسائٹی میں رہنے کی شناخت رکھنے ہی کے اہل نہیں ہوں گے۔

ابھی دفتر میں باس نے بتایا کہ لندن میں ان کے ایک دوست کی پوری فیملی کو شہریت مل گئی لیکن لائسنس کے مسائل کی وجہ سے خاندان کا سربراہ، جو ان کا دوست ہے، اسے تاحال شہریت ہی نہیں مل سکی۔

اسی طرح امریکہ میں صورت حال ہے، چند بار وارننگ اور اس کے بعد السلام علیکم، گاڑی چلانے سے آپ کو مکمل فارغ خطی مل جائے گی۔ عرب امارات میں اتنے بھاری جرمانے ہوتے ہیں کہ گاڑی کی فٹنس خود دیسیوں کو اَن فٹ رکھتی ہے، یقین نہ آئے تو ادھر کسی انڈین یا پاکستانی سے پوچھ لیں۔

موجودہ سموگ میں حکومت کی ذمے داری یہ ہے کہ باوجود انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ، جس کے مطابق لاہور کی آلودگی میں 83 فیصد حصہ گاڑیوں اور بسوں کا ہے، دائیں بائیں کی باتیں کر رہی ہے، دہلی پہ مدعا گھما رہی ہے، فصلیں جلانے پہ سختی کر رہی ہے لیکن نمبر ون کے مجرم یعنی ہماری گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو قابو کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کام اب تک نہیں کر پائی۔

موٹر سائیکل؟ غریب کی سواری ہے بابا وہ تو؟؟؟ وہ کتنا دھواں مچا دیتی ہو گی؟ انڈپینڈنٹ اردو سے وابستہ صحافی سجاد اظہر صاحب نے گذشتہ دنوں فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کا تذکرہ کیا، جس کے مطابق پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد گاڑیاں اور دو کروڑ 40 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں ہیں۔

یعنی پچھلے پانچ برس میں پاکستان نے 73 ارب ڈالر کی پیٹرولیم  مصنوعات درآمد کیں تو ان میں سے 15ارب ڈالر کا تیل ان موٹر سائیکلوں میں استعمال ہوا اور ان کا ٹرانسپورٹ سے ہونے والی آلودگی میں حصہ بنتا ہے 69 فیصد جبکہ گاڑیوں اور جیپوں کا 23 فیصد ہے۔

ایک رولا اور ہے، وہ ہے ہمارا پیٹرول ۔۔۔ دنیا پوری یورو فائیو پہ شفٹ ہو گئی جسے ہم ہائی اوکٹین کہتے ہیں، ہم کہاں ہیں؟ یورو ٹو پر، مطلب جو نارمل پیٹرول ہم لوگ ڈلواتے ہیں۔ اگر ہر گاڑی ہائی اوکٹین استعمال کرے تو کیا ہو گا؟ ریگولر پیٹرول کی نسبت دھویں کا زہریلا پن 60 فیصد کم جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور ہاں، کراچی میں تو لاہور سے زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں، زیادہ دھواں ہے، زیادہ آلودگی ہے، تو وہاں آخر اب تک سموگ کیوں نہیں شروع ہوئی؟ اس کا سادہ ترین جواب یہ ہے کہ سموگ محتاج ہے اپنے ہونے کے لیے فوگ (دھند) کی۔

جن علاقوں میں صبح کے وقت ہوا میں پانی کے بخارات یعنی دھند ہو گی، انہی علاقوں کی آلودگی کے پارٹیکلز پانی کے ان ذرات پہ سوار ہو جائیں  گے اور سموگ کی شکل میں آپ کو ہم کو پریشان کرتے رہیں گے۔

لاہور دہلی والی بیلٹ چونکہ فوگ کا موسم ہمیشہ سے رکھتی ہے، اس لیے یہاں سموگ بھی ہوتی ہے۔ کراچی اور ممبئی میں چونکہ سمندر ہے، ہوا چلتی رہتی ہے، دھند کا منظر بن نہیں پاتا تو اسی لیے آلودگی کے ذروں کو سواری کوئی نہیں ملتی اور وہ دائیں بائیں ہو جاتے ہیں۔

حل کیا ہے؟

پانی کے چھڑکاؤ والی گاڑیاں تو بالکل حل نہیں ہیں، نہ ہی چھوٹی موٹی قسم کی زرعی پابندیوں سے سموگ پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔ بڑے قدم اٹھانا ہوں گے۔

پیٹرول صرف ہائی اوکٹین ملے، ہر گاڑی کی سال میں دو بار ایمیشن انسپیکشن ہو اور خلاف ورزی پہ لائسنس معطلی کے ساتھ بھاری ترین جرمانے ہوں، پبلک ٹرانسپورٹ کا نیٹ ورک وسیع ترین ہو اور سائیکل چلانے کے لیے ہر جگہ الگ ٹریک بنا کے عوام میں سائیکلیں مفت یا آسان اقسام میں بے دریغ بانٹی جائیں تو اگلے پانچ سال میں واضح فرق نظر آنا شروع ہو سکتا ہے، ورنہ ہر سال موجودہ برس سے کئی گنا بھاری ہو گا۔

اب یہ نوشتہ دیوار نہیں ہے، روزِ روشن ہے جسے ہر صبح دھوئیں میں سے طلوع ہو کے ہمارا منہ چڑانا ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات