سموگ کے باعث لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ: سینیئر صوبائی وزیر

مریم اورنگزیب نے کہا کہ لاہور سموگ کی لپیٹ میں ہے، دھند کا سیزن بھی شروع ہوگیا ہے، اے کیو آئی لیول انٹرنیشنل سٹینڈرز کے مطابق خطرناک ہیں، لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر رہے ہیں۔

14 نومبر 2024 کو لاہور میں گھنی سموگ میں شہریوں کو دیکھا جا سکتا ہے (عارف علی / اے ایف پی)

صوبہ پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے جمعہ کو کہا ہے کہ اس وقت سموگ ایک قومی بحران ہے جو ہیلتھ کرائسز میں تبدیل ہو چکا ہے، جس کے باعث لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی جا رہی ہے۔

مریم اورنگزیب نے سموگ کے حوالے سے لاہور میں ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور سموگ کی لپیٹ میں ہے، دھند کا سیزن بھی شروع ہو گیا ہے، اے کیو آئی لیول انٹرنیشنل سٹینڈرز کے مطابق خطرناک ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ نے مارچ میں ہی سموگ کا 10 سالہ منصوبہ بنایا تھا، سموگ پر جوڈیشل کمیشن بھی بنایا ہوا ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت کو ہدایت کی گئی ہے کہ ’ایک ماہ سے قائم سموگ ڈیسک میں اضافہ کیا جائے جبکہ پیرامیڈیکل سٹاف کی چھٹیاں ختم کر دی گئی ہیں۔‘

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ صوبے میں او پی ڈی کے اوقات رات آٹھ بجے تک بڑھا دیے گئے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سموگ کی شدت کم نہیں ہو سکی اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں سموگ کے ساتھ فوگ بھی بڑھ رہی ہے۔

جمعے کو بھی لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست مین پہلے نمبر پر رہا اور ایئر کوالٹی انڈیکس دن 12 بجے تک 683 ریکارڈ کیا گیا۔ جمعرات کی شام 14 سو تک پہنچا تھا۔

دوسری جانب محکمہ صحت پنجاب کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں گذشتہ 30 روز کے دوران سانس کی تکلیف میں مبتلا 19 لاکھ مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔

دمے کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 14ہزار، امراض قلب میں 13 ہزار پانچ سو، فالج کے پانچ ہزار سے زائد جبکہ آشوب چشم کے 10 ہزار چار سو سے زائد مریض رپورٹ ہو چکے ہیں۔

سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد کا تعلق لاہور سے ہے جہاں سانس کی تکلیف کے ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہو چکے ہیں۔

گذشتہ30  دن کی اس رپورٹ میں صرف سرکاری ہسپتال شامل ہیں جبکہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کے لیے جانیوالے مریضوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ کے تدارک کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق خان کے ذریعے پنجاب حکومت کو ہدایت کی کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے ہی واپس آئیں تو آپ کو سموگ پر لانگ ٹرم پالیسی کے حوالے سے بات کرنی چاہیے۔‘

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے پنجاب میں الیکٹرک بسیں چلانے کے لیے بجٹ مختص کردیا ہے۔ اگلے سال جون سے قبل یہ بسیں سڑکوں پر ہوں گی۔ ہم فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے اقدامات بھی کر رہے ہیں، سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔ ہم بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ یہ اقدامات تو بہت اچھے ہیں، حکومت کو چاہیے اعلان کرے کہ زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہ بنائی جائیں۔

جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم لینڈ ایکوزیشن ایکٹ پر بھی کام کررہے ہیں۔عدالت نے ہدایت کی کہ زیر زمین پانی محفوظ کرنے والا ایک پودہ ہے اس کو زیادہ سے زیادہ لگایا جائے، دس مرلہ گھروں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا لازمی قرار دیا جائے۔‘

خالد اسحاق خان نے عدالت کو بتایا کہ ’زمینی سطح کا ٹمپریچر بھی بڑھا ہے۔ ہم اس پر بھی کام کر رہے ہیں، اربن فاریسٹ کے لیے کام شروع ہے مارچ میں عدالت کو اس کی رپورٹ دیں گے، سموگ کے حوالے سے پنجاب حکومت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے، نہ صرف اقدامات کیے جا رہے ہیں بلکہ ان کی مانیٹرنگ کے ساتھ اس کو بہتر بھی کیا جا رہا ہے۔‘

عدالت عالیہ نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ آپ بیجنگ ماڈل کو دیکھ کر عدالت کی معاونت کریں، سماعت پر دوبارہ عملدرآمد رپورٹس پیش کی جائیں اور سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔ سموگ تدارک سے متعلق یہ کیس گذشتہ دو سالوں سے زیر سماعت ہے۔

جمعرات کو حکومت پنجاب نے سموگ کے تدارک کے لیے پالیسی لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی جس میں بتایا گیا کہ اگلے سال لوگوں کو کہیں گے کہ شادیاں اکتوبر میں کر لیں، نومبر، دسمبر اور جنوری میں نہ کریں۔ پنجاب حکومت نے نومبرسے جنوری تک شادیوں پر پابندی کی تجویز پیش کی ہے۔

ڈائریکٹر ایمرجنسی گنگارام ہسپتال ڈاکٹر منیر احمد کے مطابق سموگ کے باعث سانس، آنکھوں اور نزلہ زکام کھانسی کے مریض بڑھ گئے رہے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں سموگ کی شدت میں اضافے سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد معمول سے کئی گنا زیادہ ہے لہذا ہسپتالوں میں ان کے لیے اضافی عملہ کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں۔ ضروری ادویات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جا رہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات