2018 کےعام انتخابات سے پہلے انہوں نے ٹیلیوژن پر سنا کہ خواتین کو گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے ضرور جانا چاہئے۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ یاسمین کے دل کو یہ بات لگی اور اس نے سوچا کہ وہ بھی اس بار ووٹ ڈالنے ضرور جائیں گی۔
لیکن جب یاسمین نے یہ بات ساس سے کی تو اس نے پہلے تو یاسمین کا مذاق اڑانا شروع کیا اور پھر گالیاں دینے پر اتر آئیں۔ یاسمین کہتی ہیں کہ کیسے اس کا سسر بھی اس گالم گلوچ میں شریک ہوا اور کہنے لگا، ’’یہ ٹی وی والی لڑکیاں خود تو خراب ہیں ہی اب ہماری خواتین کو بھی نہیں بخش رہیں۔‘‘
سسر نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ سوئچ اتار کر ٹی وی کو رضائیوں والے صندوق میں رکھ دیا۔
یاسمین نے ساس سسر کے سامنے ہار مان لی کیونکہ بقول اس کے اپنا حق استعمال کر کےاس نے کون سا تیر مار لینا تھا۔ وہ اپنا گھر کا ماحول مزید خراب نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ لہذا ووٹ دینے کا فیصلہ تبدیل ک لیا۔
یاسمین کے جیسے ہزاروں گھر اور ایسے ہیں جہاں خواتین کا سیاست پر بات کرنا اور ووٹ ڈالنا معیوب باتیں سمجھی جاتی ہیں۔ دراصل ہوا یوں ہے، کہ جب دنیا ترقی پسند دور میں داخل ہوئی تو حقوق نسواں کے حامیوں نے یہ سمجھا کہ خواتین کو شعور و تعلیم سے لیس کرنے سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کیونکہ وہ اپنا حق پہچان کر اس کا استعمال کرنا جان سکیں گی۔
اس لمبی جدوجہد کے بعد آج بھی کامیاب وہ ہی خواتین ہیں جن کے ساتھ اپنے گھر کے مردوں کا ساتھ ہے۔ یہ ہی وہ خواتین ہیں جو حقوق نسواں پر بات کر رہی ہیں اور دنیا کے لیے مثال بنی ہوئی ہیں۔
جدید دنیا نے خواتین کو سمجھانے، انہیں باشعور بنانے، انہیں توجہ دینے پر اتنا زور دیا کہ مرد نظر انداز رہ گئے۔ مردوں کی ذہنی نشونما اور ان کی ENLIHGTENMENT پر توجہ نہیں دی گئی۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کتنی فی صد خواتین باشعور ہو کر اپنا حق استعمال کرتی ہیں؟ اور کتنی خواتین تعلیم یافتہ ہو کر بھی اپنے حق کے لیے لڑتی ہیں؟ انڈپینڈنٹ اردو کا اس حوالے سے کیا گیا ایک سروے ثابت کرتا ہے کہ زیادہ تر خواتین خواہ تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہوں، اپنے فیصلوں میں گھر کے مردوں کی رائے کو مقدم رکھتی ہیں۔
خواتین چاہے تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ، گھر کے مردوں کی رائے کو اپنی رائے پر فوقیت کیوں دیتی ہیں؟
اس کے پیچھے اکثر مندرجہ ذیل وجوہات ہوتی ہیں،
- 1۔ ڈر وخوف
- 2۔ عزت یا پیار کی وجہ سے ہار مان جاتی ہیں۔
- 3۔ رسم و رواج، جیسے کہ لوگ کیا کہیں گے۔
- 4۔ مشترکہ خاندانی نظام
ایک سچ یہ بھی ہے کہ پشتون معاشرے کے مردوں میں مردانیت دکھانے اور منوانے کا عنصر بہت حاوی رہا ہے۔ اگر ایک عورت اس کی بات سے اختلاف کرے تو اس کی مردانیت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ لہٰذا اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ہر بات کو من و عن تسلیم کیا
جائے۔ مثال کے طور پر بیوی، بیٹی یا بہن کو ووٹ دینے جانا چاہئے یا نہیں۔ اور یہ بھی کہ ووٹ کس کو دینا ہے۔
الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے انکشافات
مورخہ 24 جنوری 2019 کو الیکشن کمیشن کے صوبائی دفتر نے پشاور میں میڈیا کے سامنے ایک حقیقت سے پردہ اٹھایا جس میں انھوں نے بتایا کہ 2018 کے عام انتخابات کا مجموعی ٹرن آؤٹ 52 فی صد رہا۔ جبکہ 2013 میں مجموعی ٹرن آؤٹ 55 فی صد تھا۔
ادارے کے تعلقات عامہ کے اہلکار سہیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’’52 فی صد جو ووٹ ڈالے گئے ان میں 80 فی صد ووٹ مردوں نے پول کئے ہیں۔ تو ایک طرف تو مجموعی ٹرن آؤٹ کم رہا ہے۔ اس میں بھی خواتین نے آدھے سے بھی کم ووٹ ڈالے ہیں۔‘‘
اسی بات کے پیشِ نظر اب الیکشن کمیشن نے یہ طے کیا ہے کہ جہاں پر 10 فی صد سے کم خواتین ووٹ ڈالیں گی، وہاں پر ادارہ نتائج کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ صو بائی الیکشن کمشنر ہارون شنواری کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2018 دراصل خواتین کی حقوق کی حفاظت کے لیے ہے۔ اور اسی ایکٹ کے تحت چند اضلاع میں نتائج کالعدم قرار دیے جاچکے ہیں۔ کیونکہ خواتین کے ووٹ 10 فی صد سے کم تھے۔
الیکشن کمیشن دفتر سے جینڈر افئیرز کے امور پر معمور نگہت صدیقی کا کہنا ہے کہ ’’خواتین اس لیے بھی ووٹ نہیں ڈالتیں، کیونکہ مرد تو ووٹ ڈالنے خود جاتے ہیں، جب کہ خواتین کو لے جایا جاتا ہے۔‘‘
کیا خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کی ذمہ داری صرف مردوں پر ڈالی جا سکتی ہے؟
یہ سچ ہے کہ خواتین کی اکثریت پر ان کے مردوں کی حاکمیت قائم ہے۔ خاص طور پر ووٹ ڈالنے کے معاملے میں تو کچھ بھی ممکن ہے۔ جیسے کہ حریف کو ہرانے کے لیے ایسی خواتین کو بھی گھر سے نکالا جاتا ہے جن کو عموماًً سات پردوں میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن جب مرضی
نہیں ہوتی تو ان خواتین کو بھی اس دن گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی جو پڑھی لکھی سمجھدار اور خود مختار ہوتی ہیں۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو یوں بھی ہوتا ہے کہ خواتین خود بھی ذمہ داریاں نبھانے سے لاپرواہ رہتی ہیں۔ اخبار نہیں پڑھتیں۔ ملکی معاملات سے خود کو باخبر نہیں رکھتیں۔ ووٹ ڈالنا انہیں ایک ’’بورنگ ‘‘ ایکٹویٹی لگتی ہے۔ یا پھروہ پڑھی لکھی نہیں ہوتیں۔ کہ ووٹ کی اہمیت کا اندازہ لگا سکیں۔ ایسا کرنے کا نتیجہ نہ صرف خواتین کو بلکہ تمام عوام کو مختلف صورتوں میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔