نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت طبی تعلیم کی کمیٹی کے پانچویں اجلاس میں پنجاب سمیت ملک بھر کے نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں فیس کی حد 18لاکھ روپے تک مقرر کرنے پر اتفاق ہوا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تجویز پر نجی میڈیکل کالجز عمل کریں گے؟
27 مارچ کو اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں اتفاق رائے ہوا کہ مہنگائی کے تناسب سے فیس میں سالانہ کمی بیشی کی جائے گی۔ نجی میڈیکل ادارے جو اس وقت اس رقم سے کم فیس لے رہے ہیں اسے برقرار رکھیں گے اور مہنگائی کے اعداد و شمار کے مطابق ہی فیس میں سالانہ اضافہ کیا جائے گا۔
کمیٹی نے نجی میڈیکل کالجوں میں فیس کے قواعد و ضوابط اور انہیں معقول بنانے پر غور کیا جس کا مقصد فیس کو طلبا اور اداروں دونوں کے لیے موزوں بنانا ہے۔
طبی کمیٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نجی اداروں میں ٹیوشن کی بڑھتی ہوئی قیمت طویل عرصے سے طلبا اور ان کے خاندانوں کے لیے بوجھ بنی ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان میں قابل رسائی اور مساوی طبی تعلیم کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
’پی ایم ڈی سی حکام کے مطابق فیسوں کی حد 18لاکھ روپے مقرر کرنے کا باقاعدہ اعلان اسحاق ڈار خود کریں گے۔‘
لاہور کے پرائیویٹ میڈیکل کالج کے ایڈمن افیسر کے بقول: ’تمام نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز نے فیسیں اخراجات اور طلبہ کو سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے مقرر کر رکھی ہیں لیکن اب مشاورت سے اگر فیسوں کی حد مقرر کی جارہی ہے تو ہم بھی اس پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔‘
نجی میڈیکل کالجز کی فیسوں کا معاملہ
ملتان کے ایک میڈیکل کالج میں زیر تعلیم فائنل ایئر کے طالب علم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ایف ایس سی پری میڈیکل میں 1100 میں سے ایک ہزار 30 نمبر حاصل کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے بعد میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے ٹیسٹ دیا تو میرا میرٹ سرگودھا میڈیکل کالج میں بنا، گھر سے والدین نے داخلہ لینے کی اجازت نہیں دی لہٰذا میں نے پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا چار سال میں 40 سے 45 لاکھ روپے فیسوں اور مختلف فنڈز کی مد میں ادا کر چکے ہیں، ابھی ایک سال مزید اخراجات کرنا ہوں گے۔‘
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس مسئلے پر پہلے چار جون 2022، 10 دسمبر 2023 اور 23 فروری 2024 کو ہونے والے کونسل کے اجلاسوں میں بحث کی گئی تھی، جس پر 27 فروری 2025 کو پروفیسر ڈاکٹر مسعود گوندل کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
کمیٹی نے اپنی حتمی سفارشات پیش کرنے سے پہلے نجی کالجوں اور پاکستان ایسوسی ایشن آف میڈیکل انسٹی ٹیوشنز (پی اے ایم آئی) سمیت سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا۔
سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد اصلاحاتی کمیٹی نے طے کیا کہ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس پروگراموں کے لیے 18 لاکھ روپے سالانہ ٹیوشن فیس مناسب ہو گی۔ فیس کو کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر سالانہ ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
پی ایم ڈی سی نے واضح کیا کہ وہ ادارے جو زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنا چاہتے ہیں انہیں ہر سال زیادہ سے زیادہ 25 لاکھ روپے تک کے لیے تفصیلی مالی جواز پیش کرنے کی ضرورت ہو گی، جس میں ملتے جلتے اداروں کے ساتھ موازنہ، پیش کردہ خدمات، اور تعلیمی اضافہ شامل ہیں۔
کونسل نے کہا کہ ’غیر معقول یا بلاجواز فیسوں میں اضافے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تمام ٹیوشن فیس اضافہ شفاف اور حقیقی تعلیمی اخراجات کے ساتھ ہونا چاہیے۔‘
سرکاری کی بجائے نجی طبی کالجز میں داخلے مجبوری کیوں؟
پری میڈیکل پاس کرنے کے بعد طلبہ کو پہلے سے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر بننے والے میرٹ پر سرکاری میڈیکل یا ڈینٹل کالجز میں داخلے دیے جاتے ہیں لیکن دستیاب کالجز کے مقابلے میں طلبہ کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مشرف حکومت نے پری میڈیکل کے بعد داخلہ ٹیسٹ کی شرط رکھ دی جس کے بعد کئی طلبہ سرکاری طبی کالجز میں داخلہ سے محروم رہنے لگے۔
حکومت نے ملک بھر میں پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز بنانے کی اجازت دی لیکن اب ان کالجز کی لاکھوں روپے فیسوں نے طلبہ اور ان کے والدین کو پریشان کر رکھا ہے۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) کے ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں کل 32 پرائیوٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز قائم ہیں جبکہ سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی تعداد صوبے میں صرف 18ہے۔
اس سال 2025 کے لیے میرٹ لسٹ کے مطابق سرکاری ہسپتالوں کا اوسط میرٹ مجموعی طور پر 94 سے 96 فیصد پر برقرار رہا، جس میں پری میڈیکل اور انٹری ٹیسٹ کے نمبروں سے تناسب بنایا گیا۔
نجی میڈیکل کالجز کا میرٹ 72 فیصد تک رہا۔ میرٹ میں اس نمایاں کمی کے باعث جن سینکڑوں طلبہ کو سرکاری میڈیکل کالجز میں میرٹ پر داخلہ نہ مل سکا انہوں نے نجی کالجز میں لاکھوں روپے فیس ادا کر کے داخلے حاصل کیے۔
طلبہ کے والدین کے مطابق تمام نجی کالجز نے الگ الگ فیسیں رکھی ہوئی ہیں۔ جن میں 25 لاکھ سے 35 لاکھ روپے تک سالانہ فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ سرکاری کالج کی فیس صرف 18 ہزار روپے سالانہ ہوتی ہے۔