لاابالی پاکستان کی کشمکش

انڈیا کی ٹیم کافی مضبوط ہے لیکن پاکستان ایک بازیگر ہے اور بازیگر ہی بازی پلٹتے ہیں۔

پاکستانی بیٹر شاداب خان چھ جون، 2024 کو ڈیلس میں امریکہ کے خلاف بیٹنگ کے دوران آرام کرتے ہوئے (اے ایف پی)

کہتے ہیں جب شکستوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو جیت کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم ڈیلس میں امریکہ سے ذلت آمیز شکست کا بوجھ لیے نیویارک پہنچ چکی ہے جہاں وہ اتوار کو انڈیا سے اہم میچ کھیلے گی۔

ٹیم کے نخروں کا یہ حال ہے کہ پہلا ہوٹل اس لیے پسند نہیں آیا کیونکہ وہ نیویارک گراؤنڈ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ اب گراؤنڈ سے 15 منٹ کی مسافت پر انتہائی مہنگا ہوٹل لیا گیا ہے۔ 
 
ڈیلس میں جس خفت اور توہین نے پاکستان ٹیم کو اپنے جال میں جکڑا ہے اس نے اب اگلے میچوں میں ٹیم سے امیدیں ختم کر دی ہیں۔ ڈیلس میں جو کچھ ہوا اسے پاکستانی کرکٹ شائقین برسوں نہیں بھلا سکیں گے۔  
 
نیو یارک جسے آسمان کا شہر کہتے ہیں اس میں آئی سی سی نے ایک مصنوعی سٹیڈیم بنا کر کرکٹ کا مرکز بنانے کی کوشش کی ہے۔ 
 
بلند وبالا عمارتوں کے درمیان کرکٹ کا گراؤنڈ نیویارک میں کتنا معروف اور مقبول ہے اس کا اندازہ ہمیں ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھ کر ہوا جب ان سے ہم نے لانگ آئی لینڈ کے کوئینز علاقے سے کرکٹ گراؤنڈ جانے کے لیے کہا تو انہوں نے نفی میں سر ہلا دیا کہ وہ ایسے کسی سٹیڈیم سے واقف نہیں ہیں۔ 
 
ان کی بات بھی درست تھی کیونکہ کرکٹ سٹیڈیم راتوں رات بنا ہے۔ نساؤ کاؤنٹی کے سرسبز میدان میں تازہ ترین تعمیر شدہ کرکٹ گراؤنڈ کی سب سے خاص پہچان آئزن ہاور پارک ہے، جس کے قلب میں گراؤنڈ ہے۔
 
کرکٹ نیو یارک کے شہریوں کے لیے اجنبی لفظ ہے۔ ٹائمز سکوائر پر بل بورڈ بنا کر آئی سی سی نے سمجھ لیا کہ کرکٹ امریکہ کے قلب میں پہنچ چکی ہے۔ 
 
آئی سی سی نے جب نیویارک کو ورلڈ کپ میچ کے لیے منتخب کیا تھا تو امریکہ کرکٹ ایسوسی ایشن بھی حیران ہو گئی تھی کیونکہ نیو یارک میں تو کوئی معیاری گراؤنڈ ہے اور نہ اتنی جگہ۔ 
 
لیکن ضدی مزاج افسروں دونوں ہاتھ سے پیسہ لٹا کر عارضی اور بدنما گراؤنڈ زبردستی بنادیا۔ نئی نویلی پچ اور پھر وہ بھی ایسی کہ جو کہیں اور تیار ہوئی اور لا کر بچھا دی گئی۔ اس پر جتنے بھی میچ کھیلے گئے اس سے ٹیمیں مطمئن نہیں۔ 
 
آئی سی سی کا دعویٰ ہے کہ 34 ہزار افراد کے لیے موزوں نساؤ گراؤنڈ سٹیٹ آف دی آرٹ سٹیڈیم ہے اور اس کا سارا خرچہ صرف ایک میچ کی آمدنی سے نکل آئے گا۔
 
نو جون کی صبح جب پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی تو ٹکٹس اور اشتہاری بورڈز سے گراؤنڈ کی تعمیر کا خرچہ پورا ہو جائے گا لیکن سہولتوں کے حساب سے یہ سچ نہیں۔
 
عارضی نشستیں اور میڈیا باکس خانہ بدوشوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ گراؤنڈ کے احاطے میں بڑا اور عارضی کمپلیکس بنانے کے باعث شائقین کو تین کلو میٹر تک پیدل سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ 
 
 
سخت سکیورٹی نے گراؤنڈ میں داخلہ ایک مہم بنا دیا ہے۔ میچ کا وقت بھی صبح ساڑھے 10  بجے رکھا گیا ہے جس کے لیے نیویارک جیسے شہر میں شائقین جو صبح سات بجے گھر سے روانہ ہونا ہوگا ورنہ وہ گراؤنڈ نہیں پہنچ سکتے۔
 
گراؤنڈ کے قریب پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہ ہونے کے باعث طویل پیدل مسافت طے کرنا ہوگی۔ 
 
امریکہ میں انڈین شہریوں کی کثیر تعداد آباد ہے اور اکثریت امیر طبقے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اس میچ کا ٹکٹ ہر ایک کا خواب ہے چاہے اس کے لیے کتنی ہی قیمت دینا پڑے۔ بلیک مارکیٹ میں 200 ڈالر کے ٹکٹ کی قیمت 20 ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ 
 
آئی سی سی ٹکٹس کی فروخت میں ہمیشہ لاپروائی دکھاتی ہے جس سے شائقین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
 
نیویارک گراؤنڈ کی پچ پر اس قدر تنقید ہو رہی ہے کہ آئی سی سی کو اپنا وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا کہ ہم اسے بہتر کر رہے ہیں۔
 
انگلینڈ کے مائیکل واہن نے تو اسے تاریخ کا سب سے بھونڈا مذاق کہہ دیا۔ دوسری طرف ناصر حسین اور مائیکل ایتھرٹن جیسے سنجیدہ تبصرہ نگار بھی اسے زیادتی کہہ رہے ہیں۔
 
ساؤتھ افریقہ، جس نے یہاں پہلا میچ کھیلا، اس کے کپتان نے تو اسے کرکٹ کی خودکشی قرار دیا۔ انڈین کپتان روہت شرما جو اپنی بذلہ سنجی کے لیے مشہور ہیں انہوں نے اسے ’پانی پر کھیلنا’ کہہ دیا۔ 
 
نیویارک گراؤنڈ کی پچ 

ڈراپ ان پچ کے خیال نے آسٹریلیا سے جنم لیا تھا۔ جہاں سٹیڈیمز کے کثیر جہتی ہونے کے باعث پچ کو نکال لیا جاتا ہے اور دوسری تقریبات کے لیے میلبرن، برسبین اور ایڈیلیڈ استعمال ہوتے ہیں۔

اس خیال کو دوسرے ممالک نے بھی عملی شکل دینے کی کوشش کی۔ تاہم آئی سی سی نے پہلی مرتبہ اس کو نیویارک میں آزمایا ہے۔ 
 
ایڈیلیڈ کے کیوریٹر نے فلوریڈا کے گرم موسم میں پورٹیبل پچ تیار کی اور اسے ٹرک کے ذریعے نیویارک پہنچایا گیا۔ 
 
پچ پر پہلا میچ سری لنکا اور ساؤتھ افریقہ کے درمیان ہوا تو ایسا لگا کہ پچ نے بلے بازوں کے ہاتھ ہی باندھ دیے ہیں۔ دونوں ٹیموں  کے مختصر سکور  نے پچ کی بے اعتنائی لکھ دی۔ دوسرا میچ انڈیا اور آئر لینڈ کے درمیان ہوا تو پچ میں دوہرا پیس تھا جس کے باعث گیند بیٹ پر نہیں آرہی تھی۔
 
پچ کا سب سے اہم مسئلہ اس کی مٹی کا گراؤنڈ کی مٹی سے ملحق نہ ہونا ہے جس کے باعث مٹی میں کہیں کہیں ڈھیریاں بن گئی ہیں  اور کہیں پر خلا ہے۔ ایک اچھی پچ کم ازکم دو سال تک رول کی جاتی ہے جب کہیں اس میں یکساں باؤنس آتا ہے۔ 
 
آئی سی سی کے کیوریٹرز  اسے صحیح کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ 
 
انڈیا کا میچ سے پہلے جیت کا دعوی 
 
انڈیا کی ٹیم ہر عالمی مقابلے میں فیوریٹ سمجھی جاتی ہے اور سب سے زیادہ اسی پر نظریں ہوتی ہیں۔ گذشتہ ورلڈ کپ اور ٹیسٹ چیمپیین شپ فائنل کھیلنے والی انڈیا کو دونوں دفعہ آسٹریلیا نے دھول چٹائی تھی۔ 
 
حالاں کہ میچ سے قبل انڈیا ہر ماہر کی نظر میں جیت کے سنگھاسن پر نظر آ رہا تھا لیکن ساؤتھمپٹن اور احمدآباد دونوں ہی شکست کے گواہ بن گئے۔
 
موجودہ ٹیم اگرچہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور توانا نظر آتی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر چند دنوں قبل ختم ہونے والی آئی پی ایل کے کسی بھی شہسوار کو انڈین سیلکٹر  نے جگہ نہیں دی۔
 
ٹیم میں وہ تمام کھلاڑی شامل ہیں جو آئی پی ایل میں معمولی کارکردگی کے حامل تھے۔ سیلکٹرز  نے سب سے زیادہ وکٹ لینے والے ہرشل پٹیل اور دوسرے سب سے زیادہ رنز کرنے والے رتو راج گائیکواڈ کو شامل نہیں کیا۔
 
فاتح ٹیم کولکتہ کے رنکو سنگھ تک شامل نہیں۔ صرف وراٹ کوہلی سب سے زیادہ رنز بنانے والے شامل ہیں۔ ٹیم کی جان تو کوہلی ہی ہیں لیکن روہت شرما اور رشبھ پنٹ وہ کھلاڑی ہیں جن کی برق رفتار اننگز کچھ بھی کرسکتی ہے۔ 
 
انڈیا نے اوپننگ میں نیا تجربہ کیا ہے اور کوہلی اب اوپننگ کر رہے ہیں۔ وہ آئرلینڈ کے خلاف جلدی آؤٹ ہو گئے تھے، تاہم وہ بھرپور فارم میں ہیں۔
 
مڈل آرڈر میں سوریا کمار یادو اور شیوم دوبے ہوں گے۔ سوریا کمار کی جارحانہ بیٹنگ کا منظر تو سب دیکھتے رہتے ہیں لیکن اگر ہردک پانڈیا اور رشبھ پنت چل گئے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ 
 
پانڈیا کی فارم اگرچہ آج کل خراب ہے اور ممبئ انڈینز کی خراب کپتانی نے ان پر بہت دباؤ ڈال رکھا ہے لیکن وہ اور رویندر جدیجا آل راؤنڈرز ہوں گے اور خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
 
انڈیا نیویارک کی پچ کا مزاج دیکھتے ہوئے سراج کو بھی کھلائے گا جبکہ جسپریت بمرا اور ارشدیپ سنگھ دیگر فاسٹ بولرز ہوں گے۔ ارشدیپ نے گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلی گیند پر بابر اعظم کو آؤٹ کرکے شہرت حاصل کی تھی۔ 
 
انڈیا بظاہر زیادہ مضبوط اور متوازن نظر آرہی ہے لیکن اصل نمونہ میچ کے دن ہو گا۔ انڈیا کی اصل طاقت بیٹنگ ہوگی جس میں ورائٹی بھی ہے اور گہرائی بھی۔
 

پاکستان کشمکش میں گرفتار 

پاکستان ایک شکست کے بعد گروپ میں دھڑام سے گر پڑا ہے۔ اب اس کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں۔
 
اگر پاکستان انڈیا کو شکست دیتا ہے تو وہ پھر گروپ میں واپس آ جائے گا ورنہ اسے کینیڈا اور آئر لینڈ سے جیت کے ساتھ امریکہ کی شکست کی دعا کرنا ہوگی۔
 
امریکہ جس کے اب چار پوائنٹس ہیں، اس کی مزید ایک جیت اسے ویسٹ انڈیز کی فلائٹ میں بٹھا دے گی جبکہ پاکستان کو لاہور کی۔ 
 
انڈیا سے میچ ہمیشہ روایتی گرم جوشی اور کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ پاکستان نے اب تک آئی سی سی ایونٹس میں انڈیا کو صرف دو بار ہرایا ہے۔ 
 
اس دفعہ پاکستان بہت زیادہ پر امید تھا کہ ایک اور جیت رقم کرے گا لیکن امریکہ سے ہار نے سارے دعوے کھوکھلے ثابت کیے ہیں۔
 
انڈیا کا میچ سب سے اہم ہے لیکن کھلاڑی اور مینیجمنٹ شاید اس سے زیادہ دوسرے میچوں پر تیاری کر رہے ہیں تاکہ سپر ایٹ مرحلے میں پہنچ جائیں اس لیے ٹیم اپنی توانائی کو درست جگہ لگانا چاہتی ہے۔
 
پاکستان ٹیم اس میچ کے لیے بہت سادہ حکمت عملی اختیار کر رہی ہے۔ اگر پاکستان ٹاس جیت جاتا ہے تو پہلے بولنگ کرکے ایک ہدف سامنے رکھ کر کھیلا جائے۔ 
 
پاکستان اوپننگ کے لیے اب فیصلہ ہو چکا ہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان ہی اوپننگ کریں گے جبکہ عثمان خان ون ڈاؤن ہوں گے۔
 
عثمان ڈیلس میں فیل ہو گئے تھے لیکن اوول میں انگلینڈ کے خلاف بہتر بیٹنگ کی تھی۔ فخر زمان چوتھے نمبر پر اور افتخار احمد پانچویں پر کھیلیں گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاداب خان ڈیلاس میں بہتر فارم میں نظر آئے تھے وہ چھٹے نمبر پر کھیلیں گے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم فیصلہ ابرار احمد کی شمولیت ہو گی۔

نیویارک کی پچ پر ڈبل پیس نے سب کو ششدر کر دیا ہے۔ یہ زمان کے لیے آئیڈیل پچ تھی۔  تاہم نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، محمد عامر اور حارث رؤف فاسٹ بولرز ہوں گے۔ 
 
پچ پر ڈبل پیس ہونے کے باعث عامر کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ سب سے اہم شمولیت اعظم خان کی ہوگی۔ ڈیلس میں ایک بار پھر ناکامی کے باعث شاید نیویارک میں ان کی جگہ صائم ایوب کھیلیں لیکن ان کے نمبر کا مسئلہ ہے۔ 
 
ممکن ہے عثمان خان نیچے کھیلیں اور صائم ایوب ون ڈاؤں آئیں۔ پاکستان کو عماد وسیم کے نہ ہونے سے بہت پریشانی ہے اگر وہ فٹ ہوگئے تو صائم کی جگہ وہ کھیلیں گے۔ 
 
بازی گر کون ہو سکتے ہیں؟ 
 
ٹی 20 کرکٹ کی روح چوکے چھکے ہیں لیکن موجودہ ورلڈ کپ میں ابھی تک اس کا رنگ نظر نہیں آ رہا۔ انڈیا پاکستان میچ میں سب کی نظریں فخر زمان اور رشبھ پنٹ پر ہوں گی۔
 
دونوں میں فلک شگاف شاٹ لگانے کی زبردست صلاحیت ہے۔ فخر کی قسمت نے اگر ساتھ دیا تو وہ مرد میدان بن سکتے ہیں۔
 
ان کی بدقسمتی ان کی اصل جگہ پر قبضہ ہو چکا ہے اور اب وہ مڈل آرڈر کا خلا پر کر رہے ہیں لیکن انڈیا کے خلاف ان کا ریکارڈ اچھا بھی ہے اور قسمت بھی۔ 
 
نیویارک کے نساؤ کاؤنٹی میں کھیلا جانے والا میچ اگرچہ کوئی فیصلہ کن مرحلہ نہیں لیکن دونوں ٹیموں کے درمیان ہر میچ مارو یا مرجاؤ ہوتا ہے۔ 
 
یہ گروپ میچ پاکستان کے لیے فیصلہ کن بن چکا ہے۔ اگر ٹیم دیکھتے ہوئے پیشن گوئی کی جائے تو انڈیا بہت مضبوط نظر آتا ہے لیکن پاکستان ٹیم اپنی لاابالی کیفیت کے باعث چھپے رستم مانی جاتی ہے۔ بازی گر ہی بازی پلٹ سکتے ہیں۔  

کون بازی پلٹے گا۔ کس کا رنگ جمے گا۔ کون میدان سے فاتح بن کر نکلے گا اور کون سر جھکا کر چلا جائے گا، بس کچھ گھنٹے کی بات ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ