ہم ان والدین کے درد کو کتنا بھی محسوس کرنے کی کوشش کریں، جن کے معصوم بچے ان کے ہاتھوں میں سسکتے بلکتے مر جاتے ہیں۔ یہ درد کسی پتھر کی مانند کتنا بھاری ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ان بچوں کے والدین کو ہی ہو گا۔
ہمارے ملک میں ایسے کئی والدین ہیں، جنہوں نے اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھائی ہیں۔ یہ واقعات عوام کی آنکھوں کو نم تو ضرور کرتے ہیں مگر انتظامی نااہلی کو بھی واضح کر دیتے ہیں۔ گو کہ جنازہ تو کندھوں سے اتر جاتا ہے مگر درد کا جنازہ ان کے کندھوں پہ تاحیات پڑا رہتا ہے۔
حال ہی میں سندھ میں دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جو سندھ حکومت کی انتظامی کوتاہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جن میں سے ایک واقعہ میرپور خاص میں ہوا ہے، جس میں معصوم بچے کی میت موٹرسائیکل پر لے جانے والے باپ اور چچا حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے۔
سندھڑی کے گاؤں ہمیر درس باسی کیول بھیل کا بیٹا موہن بھیل سول ہسپتال میرپور خاص میں وفات پا گیا۔ جس کی میت کو ایمبولینس کی سہولت دینے سے ہسپتال کی انتظامیہ نے انکار کر دیا تھا۔ کیوں کہ ہسپتال والوں نے دو ہزار روپے مانگے تھے، اتنی رقم نہ ہونے کی وجہ سے بیٹے کے باپ اور چچا نے موٹرسائیکل پر معصوم بچے کے لاش کو گھر لے جانا ہی بہتر سمجھا، مگر میرپورخاص روڈ پر ہی موٹر سائیکل کو پیچھے سے گاڑی نے ٹکر ماری، جس میں دو اور زندگیاں بھی اختتام کو پہچیں۔ ہمیشہ کی طرح اس حادثے کا بھی نوٹیس لیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور واقعہ جو اسی نوعیت کا ہے، جوکہ شاہ بند میں چوہڑ جمالی میں پیش آیا ہے۔ جس میں ایک معصوم بچی کا جنازہ دڑو بیراج پر پل نہ ہونے کی وجہ سے پانی پر لکڑی کا تختہ رکھ کر دوسرے کنارے پر لانے کے لیے رسے سے کھینچا گیا۔ کچھ دنوں سے یہ وڈیو وائرل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کم از کم عوام کو وہ سہولیات فراہم کرے، جس سے کسی مرے ہوئے وجود کو قبرستان تک تو رسائی حاصل ہو سکے۔ آج بھی شہروں میں لوگ جنازوں کو گٹر کے پانی سے گزار کر قبرستان پہنچاتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ لوگوں کے لیے مرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ وہ مر کر بھی آرام سے قبرستان نہیں پہنچ سکتے۔
میرپورخاص کی ہسپتال انتظامیہ اگر دو ہزار روپے طلب نہ کرتی تو دو قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں اور ایک ننھا وجود بھی آرام سے لحد کے حوالے ہوسکتا تھا۔
چوہڑ جمالی میں دڑو بیراج سے گزرنے والی لاش محض ایک بچی کی لاش نہیں بلکہ یہ جنازہ ہے یہاں کی انتظامیہ کا، یہ جنازہ ہے سندھ حکومت کے ان اداروں کا، جن کو کروڑوں کا بجٹ ملتا ہے تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتات فراہم کی جاسکیں، اگر کہیں پل کی ضرورت ہے تو وہاں پل بنایا جائے۔ اور جہاں کسی سڑک کی ضرورت ہے تو وہاں سڑک تعمیر کی جائے۔
پیپلز پارٹی اگر سندھ کو اپنا قلعہ سمجھتی ہے تو اس کو مضبوط کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے کیوں کتراتی ہے؟ کیوں کہ عوام کی فلاح و بہبود کے بنا سیاسی طور پیپلز پارٹی خود کو بہتر نہیں کر سکتی ہے۔ جبکہ وہ اس بات کی بھی دعویدار ہے کہ سندھ میں سب سے اچھی حکمرانی پیپلز پارٹی کی ہی رہی ہے، مگر اس قسم کے واقعات کی وجہ سے حکومت اپنا چہرہ آئینے میں خود دیکھ سکتی ہے۔
سندھ کے یہ دو معصوم جنازے کوئی آخری جنازے نہیں ہیں، جنہوں نے قبرستان کا سفر اس حالت میں کیا ہے، بلکہ آنے والے وقتوں میں بھی ہم ایسا کوئی جنازہ دیکھیں گےجو کہ کئی تکالیف اور مصائب سے گزر کر قبر تک پہنچے گا۔
لیکن حکومت کو ذرا سا بھی ذمہ داری کا احساس ہوگا تو آئندہ وہ ان جانوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرے گی، اور عوام کو وہ سہولیات فراہم کرے گی کہ اگر ان کا جینا آسان نہیں تو کم از کم مرنا تو آسان ہو جائے۔