امریکہ اور ایران کے مابین ہفتے کو عمان میں مذاکرات کے پہلے دور کے اختتام پر ایران کے سرکاری ٹی وی نے بتایا کہ دونوں ملک تہران کے جوہری پروگرام پر آئندہ ہفتے دوبارہ مذاکرات کریں گے۔
ایرانی سرکاری ٹی وی نے بتایا کہ امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے مذاکرات کے اختتام پر عمانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں مختصراً بات چیت کی، جو ان دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم براہِ راست رابطہ تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بات چیت کے اختتام پر کہا کہ نہ ایران اور نہ ہی امریکہ ایسی بات چیت چاہتے ہیں جو ’ہمیشہ کے لیے طول پکڑ جائے۔‘
انہوں نے ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’نہ ہم اور نہ ہی دوسرا فریق بے نتیجہ مذاکرات، صرف بات چیت کے لیے بات چیت، وقت کا ضیاع یا ایسی بات چیت چاہتے ہیں جو ہمیشہ چلتی رہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ مذاکرات کا اگلا دور آئندہ ہفتے کو طے ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے کہا ’دونوں فریقین نے ان مذاکرات کو اگلے ہفتے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے عمان کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ یہ مذاکرات ’دوستانہ ماحول‘ میں ہوئے اور ایک ’منصفانہ اور لازمی معاہدے‘ کی تلاش کا آغاز ہوا ہے۔
وزیر خارجہ بدر البوسعیدی نے ایکس پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا: ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ آج ہم نے مسقط میں ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر سید عباس عراقچی اور امریکی صدارتی ایلچی سٹیو وٹکوف کی میزبانی کی اور ایک ایسے مکالمے اور مذاکرات کے عمل کا آغاز کروایا جس کا مشترکہ مقصد ایک منصفانہ اور لازمی معاہدے تک پہنچنا ہے۔
’میں اپنے دونوں ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دوستانہ ماحول میں اس عمل میں شرکت کی۔‘
امریکی حکام نے فوری طور پر ایرانی رپورٹس پر تبصرہ نہیں کیا۔ دونوں فریقین نے عمان کے مضافات میں واقع مقام پر دو گھنٹے سے زائد وقت تک بات چیت کی، جو مقامی وقت کے مطابق شام 5:50 بجے اختتام پذیر ہوئی۔ مذاکرات شام 3:30 بجے شروع ہوئے تھے۔
مذاکرات کا پہلا دن: عمان میں خفیہ مقام پر بات چیت
ہفتے کی دوپہر مذاکرات عمان میں ایک مخصوص مقام پر ہوئے جن کے متعلق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’بالواسطہ بات چیت‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔
’یہ مذاکرات عمانی میزبان کے طے کردہ مقام پر ہو رہے ہیں، جہاں اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کے نمائندے الگ الگ ہالز میں بیٹھے ہیں اور عمانی وزیر خارجہ کے ذریعے اپنے مؤقف ایک دوسرے تک پہنچا رہے ہیں۔‘
تقریباً ایک گھنٹے بعد بقائی ایرانی سرکاری ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے کہا: ’اسلامی جمہوریہ ایران کا مقصد بالکل واضح ہے — ہمارا صرف ایک ہدف ہے، اور وہ ہے ایران کے قومی مفادات کا تحفظ۔ ہم سفارت کاری کو ایک سنجیدہ اور مخلص موقع دے رہے ہیں تاکہ بات چیت کے ذریعے ہم جوہری مسئلے پر آگے بڑھ سکیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ پابندیاں ختم ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ تو صرف شروعات ہے۔ اس مرحلے پر دونوں فریق عمانی ثالث کے ذریعے اپنے بنیادی مؤقف ہی پیش کریں گے۔ اس لیے ہمیں توقع نہیں کہ یہ دور طویل ہو گا۔‘
وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی ایرانی صحافیوں سے گفتگو کی، جسے سرکاری خبر رساں ادارے ارینا نے آڈیو کلپ کے طور پر نشر کیا: ’اگر دونوں فریقوں میں کافی سیاسی ارادہ ہوا تو ہم کسی نظام الاوقات پر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن فی الحال اس پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔
’ابھی تک بات واضح ہے کہ یہ بالواسطہ مذاکرات ہیں اور ہمارے خیال میں صرف جوہری مسئلے پر ہیں، جن کا مقصد ایک ایسا معاہدہ حاصل کرنا ہے جو برابری کی بنیاد پر ہو اور ایرانی عوام کے قومی مفادات کو تحفظ فراہم کرے۔‘
اگرچہ ایران انہیں بالواسطہ مذاکرات کہہ رہا ہے، لیکن صدر ٹرمپ اور وٹکوف اس بات چیت کو ’براہِ راست‘ قرار دے چکے ہیں۔
وٹکوف نے اپنے دورے سے قبل وال سٹریٹ جرنل کو بتایا: ’ہماری پوزیشن کا آغاز آپ کے پروگرام کے مکمل خاتمے سے ہوتا ہے۔ یہ ہمارا آج کا مؤقف ہے۔
یہ ممکن ہے کہ کچھ سطح پر ہم دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کے راستے بھی تلاش کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہماری ریڈ لائن بالکل واضح ہے — آپ کے جوہری پروگرام کو ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں ہو سکتی۔‘
ایک عمانی ذریعے نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ تین نکات ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا محور ہیں۔
1. علاقائی کشیدگی میں کمی
2. قیدیوں کا تبادلہ
3. جزوی معاہدے تاکہ ایران کے جوہری پروگرام پر قابو پانے کے بدلے اس پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جا سکے۔
پس منظر
ایران اور امریکہ نے ہفتے کو عمان میں اعلیٰ سطحی مذاکرات کا آغاز کیا، جس کا مقصد تہران کے تیزی سے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام پر دوبارہ بات چیت کا آغاز کرنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
یہ مذاکرات اس خط کے چند ہفتے بعد ہو رہے ہیں جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو بھیجا تھا۔
سات مارچ کو ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایران کو ایک خط بھیجا ہے جس میں ایٹمی معاملے پر مذاکرات پر زور دیا گیا ہے۔ تہران نے اسی ماہ کے آخر میں اس خط کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے متضاد اور معاندانہ رویے کے باعث وہ واشنگٹن کے ساتھ براہ راست بات چیت مسترد کرتے ہیں لیکن بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’صرف دکھاوا کرنے اور کیمروں کے سامنے باتیں کرنے کی بجائے، تہران ایک حقیقی اور منصفانہ معاہدے کا خواہاں ہے، اہم اور قابلِ عمل تجاویز تیار ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر واشنگٹن نیک نیتی کا مظاہرہ کرے تو آگے کا راستہ ’ہموار‘ ہو سکتا ہے۔
مذاکرات سے قبل ٹرمپ نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے سخت خلاف ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’میں چاہتا ہوں کہ ایران شاندار، عظیم اور خوشحال ملک ہو۔ لیکن وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔‘
یہ بات انہوں نے اُس وقت کہی جب ان کے نمائندے سٹیو وٹکوف کی عباس عراقچی سے ملاقات چند گھنٹوں بعد متوقع تھی۔
وٹکوف، جو ٹرمپ کے قریبی دوست ہیں اور اُن کے عالمی نمائندے کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، نے مذاکرات سے قبل لچک کا عندیہ دیا۔
وٹکوف نے دا وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ ’ہمارا آج کا مؤقف‘ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرے۔
یہ وہ مؤقف ہے جو ٹرمپ کے گرد موجود سخت گیر عناصر رکھتے ہیں، اور جسے قبول کرنے کی توقع ایران سے بہت کم کی جاتی ہے۔
وٹکوف نے مزید کہا: ’ہماری سرخ لکیر یہ ہے کہ آپ اپنی جوہری صلاحیت کو ہتھیار بنانے کی طرف نہیں لے جا سکتے۔‘
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے 2015 میں ایک معاہدہ کیا جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا تھا، بغیر اس کے کہ اس کے متنازعہ پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے پر زور دیا جائے۔
ٹرمپ نے اس معاہدے کو کمزور قرار دے کر مسترد کر دیا اور پہلی بار عہدہ سنبھالتے ہی امریکہ کو اس سے الگ کر دیا اور ایران کے تیل کے شعبے پر وسیع پابندیاں عائد کر دیں۔
ایران نے اس معاہدے کی ایک سال تک پاسداری کی لیکن اس کے بعد اس نے خود بھی ان وعدوں کی خلاف ورزی شروع کر دی جو اس نے کیے۔