’ہندرمن:‘ انڈین کشمیر کا آخری گاؤں جو 1971 تک پاکستان کا حصہ تھا

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کارگل سے 10 کلومیٹر فاصلے پر موجود ہندرمن گاؤں میں اب چند ہی افراد بچے ہیں جنہیں 1971 سے پہلے پاکستان کا حصہ ہونے کا دور یاد ہے۔

ہندرمن گاؤں کارگل شہر سے صرف 10 کلومیٹر کے فاصلے پر لداخ کے خوبصورت علاقے میں واقع ہے۔ اسے پاکستان اور انڈیا سرحد کے قریب انڈین علاقے کا آخری گاؤں کہا جاتا ہے۔

بہت سے سرحدی دیہات کی طرح ہندرمن نے تاریخ کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگوں کے کراس فائر کا سامنا کیا ہے اور یہ دو حریف ممالک کے درمیان متنازعہ زمین کے حصے کے طور پر چار جنگوں سے گزر چکا ہے۔

1949 سے 1965 تک یہ پاکستان کے کنٹرول میں تھا۔

1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے بعد یہ کئی مہینوں تک ’نو مین لینڈ‘ (ایسا علاقہ جو کسی بھی ملک کی عملداری میں نہیں تھا) رہا، لیکن اس گاؤں کے باشندوں کے بقول یہاں کے بسنے والوں کی رغبت، میل ملاپ اور تعلقات پاکستانی علاقوں میں برقرار رہے۔

آخر کار 1971 کی جنگ کے دوران انڈیا نے ہندرمن پر قبضہ کر کے اسے اپنے علاقے میں ضم کر لیا۔

اس گاؤں کے ایک بزرگ شہری محمد اسماعیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم اپنے رشتہ داروں سے روبرو نہیں ملے لیکن ہم ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے کیوں کہ قریبی لوگ ہم سے دور ہیں، ان کے چہرے کبھی نہیں دیکھے جو سب سے افسوس ناک بات ہے۔‘

محمد اسماعیل کہتے ہیں کہ خصوصاً ’ان کی (پاکستان میں رہ جانے والے رشتے داروں کی) شادیوں کا سن کر اور شرکت نہ کر سکنے پر بہت افسوس ہوتا ہے۔‘

1971 کے بعد جغرافیے کی اس تبدیلی نے گاؤں والوں کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

راتوں رات وہ انڈین شہری بن گئے جبکہ سرحد پار ان کے رشتہ دار اب بھی پاکستانی ہیں۔ خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے، شوہروں کو بیویوں سے اور بھائیوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونا پڑا۔

وہ لوگ جو کبھی ایک ہی گاؤں میں رہتے تھے وہ خود کو بین الاقوامی سرحد کی مخالف سمتوں میں تقسیم ہو کر اجنبی بنتے ہوئے دیکھنے لگے۔

گاؤں کے ایک بزرگ شہری محمد حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب ہندرمن گاؤں انڈیا کا حصہ بنا تو اس وقت وہ 10، 12 سال کے تھے۔

’مجھے اس وقت کے اپنے گاؤں کی تھوڑی سی باتیں یاد ہیں۔ مجھے انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ، گولے اور دونوں اطراف کے دھماکے یاد ہیں۔ ہم خود کو زیرزمین چھپاتے تھے۔ آٹھ سے نو دن کے بعد انڈین فوج نے یہاں کا انتظام سنبھالا۔ اب میں پچھلے 50 سال سے ایک انڈین کی حیثیت سے مقیم ہوں۔‘

گاؤں کی مشکلات انڈیا میں انضمام کے ساتھ ختم نہیں ہوئیں اور 1999 میں کارگل جنگ کے دوران، ہندرمن دوبارہ فوجی کارروائیوں کے بیچ میں پھنس گیا۔

تنازعے والے علاقے سے اس کی قربت سے گاؤں کے لوگو نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا۔ یہاں کے رہائشی توپ خانے کی گولہ باری اور فوجی دستوں کی موجودگی کے مسلسل خطرے میں رہتے تھے۔ ان کی روزمرہ کی زندگی جنگ کی بازگشت کی وجہ سے درہم برہم ہو گئی تھی اور وہ ہمیشہ خوف میں رہتے تھے۔

ان مشکلات کے باوجود ہندرمن کے لوگوں نے گاؤں کو زندہ رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے گھروں اور زندگیوں کی دوبارہ تعمیر کی ہے، تاہم جنگ کی یادیں ان کے ذہنوں میں نقش ہیں۔

جنگ اور سیاسی تنازعات کی انسانی قیمت کیا ہوتی ہے؟ ہندرمن اس کے جیتے جاگتے ثبوت کے طور پر کھڑا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی