’آؤ بچو، جھولے کا مزہ لو!‘ یہ وہ آواز تھی جو پرانے وقتوں میں گلی محلوں میں سنائی دیتی تھی اور بچے اس ایک آواز پر دوڑے چلے جاتے تھے، لیکن اب جب بچے بچے کے ہاتھ میں سمارٹ فون موجود ہے تو یہ آوازیں بھی نایاب ہو چکی ہیں۔
جون کی سخت گرمی میں راولپنڈی کی گلیوں میں بچوں کے جھولے کے ساتھ گھومتے 55 سالہ محمد اخلاق کا واحد ذریعہ معاش لوہے سے بنا یہ جھولا ہے، جس وہ گذشتہ 14 برس سے گلیوں، محلوں میں بچوں کو جھولے دے کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔
تاہم اخلاق کو بجٹ سے کوئی امید نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بجٹ آنے سے عام آدمی پر بوجھ ہی پڑا ہے، ہر چیز مہنگی ہوجائے گی، جس کے بعد ہمارے لیے مسائل بڑھیں گے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں محمد اخلاق نے بتایا: ’آج سے 14 سال پہلے میں نے یہ جھولا آٹھ ہزار روپے کا خریدا تھا اور اب یہ 50 ہزار روپے کا ہے۔ پہلے اسی کام سے میں ایک دن میں ایک ہزار روپے کما لیتا تھا لیکن اب مشکل سے چار، پانچ سو روپے کی دیہاڑی لگتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول اخلاق احمد: ’پہلے میں کوشش کرکے مہینے کے 18 ہزار روپے کما لیتا تھا لیکن اب 10 سے 12 ہزار روپے ہی کماتا ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی میں اس ایک جھولے سے زندگی کا پہیہ چلانا بہت مشکل ہے۔ بجٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بجٹ سے مہنگائی بڑھے گی، ہر چیز مہنگی ہو گی تو والدین بچوں کو پیسے بھی نہیں دیں گے اور اس سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوگا۔‘
نئے دور کی اس نئی دنیا میں 14 سال پرانے اس زنگ آلود جھولے کے بارے میں محمد اخلاق کا کہنا تھا کہ آج کل جدید دور ہے، بچے نئی نئی چیزیں استعمال کر رہے ہیں تو انہیں پرانی چیزیں اچھی نہیں لگتیں، لیکن پھر بھی وہ اپنے جھولے کو اس جدید دور کے الیکٹرانک جھولوں سے کہیں بہتر مانتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’آج کل جو نئے جھولے آئے ہیں، وہ جدید دور کے ہیں موٹروں والے، جن سے بچے گر بھی سکتے ہیں، بازو ٹوٹ سکتا ہے اور کوئی مر بھی سکتا ہے اور ایسے کئی حادثات ہو بھی چکے ہیں۔ میرا جھولا چھوٹا ضرور ہے لیکن یہ میرے کنٹرول میں ہے۔‘