سیکولرازم: ہمارا فہم اور رویے

ضروری ہے کہ سیکولرازم کے حوالے سے ابہام ختم کیے جائیں اور ان عوامل پر سوچا جائے جن کی وجہ سے یورپ نے سیکولرازم کو نافذ کر کے ترقی کی اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا۔

مسیحی برادری کی خواتین 18 اگست 2023 کو گرجا گھروں پر حملوں کے خلاف کراچی میں احتجاج میں شامل ہیں (اے ایف پی)

دنیا کے کسی جدید جمہوری سیکولر مغربی ملک میں کسی پاکستانی نژاد مغربی شہری کو جب کوئی ریاستی یا نمایاں عہدہ ملتا ہے تو ہم اس پر خوب شادیانے بجاتے ہیں۔

ان کی اس کامیابی کا تذکرہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر خوب دھوم دھام سے ہوتا ہے اور ملک کے طاقتور حلقے بھی چاہتے ہیں کہ اس بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان سیکولر ممالک میں مسلمانوں کو جو مذہبی آزادیاں حاصل ہیں، ایسی آزادیاں ہم اپنی اقلیتوں کو دینے سے قاصر ہیں اور اس کی شاید ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سیکولرازم کو لادینیت سے تعبیر کرتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لادینیت ممکنہ طور پر ایک ایسا نظام ہو سکتا ہے جو مسلمانوں کو مسجد، ہندوؤں کو مندر، سکھوں کو گردوارے اور یہودیوں کو راہب خانوں میں جانے سے روکے۔

لیکن ایک ایسا نظام جو تمام لوگوں کو اس بات کی آزادی دے کہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں جا کر عبادت کریں اور اپنے مذہبی عقائد پر کھل کر عمل کریں اسے لادینیت کیسے کہا جا سکتا ہے؟

اس کے لیے زیادہ مناسب اصطلاح ہمہ دینیت ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے سیکولرازم کو برائیوں کا ایک منبع بنایا ہوا ہے۔

انہیں دنیا کی تمام برائیاں سیکولرازم میں نظر آتی ہیں لیکن اگر وہ لمحے بھر کے لیے فرض کر لیں کہ یورپ کی تمام جدید جمہوری ریاستیں ایک بار پھر فرقہ وارانہ کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ ریاستیں بن جائیں تو کیا مسلمانوں کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ وہاں آزادی سے سانس لے سکیں، مذہبی عقائد پر چلنا تو بہت دور کی بات ہے۔

شاید ان کو یاد نہیں کہ پندرہویں صدی کے اختتامی برسوں میں جب ملکہ ایسبیلہ اور بادشاہ فرڈیننڈ نے سپین کو ایک کٹر مذہبی ریاست بنایا، تو اس ریاست نے مسلمانوں اور یہودیوں کا کیا حشر کیا۔

پہلے مسلمانوں اور یہودیوں کو محدود آزادیاں دی گئیں، بعد میں انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دیں۔

اس کے بعد بھی انہیں اطمینان نہیں ملا تو یہودیوں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو جنوبی سپین سے نکالنے کا فیصلہ ہوا اور کہا گیا کہ وہ دل سے مسیحی نہیں ہوئے۔

یورپ میں سیکولرازم کچھ برسوں میں نہیں آیا بلکہ طویل خون خرابے اور خانہ جنگیوں کے بعد یورپ نے سیکھا کہ مذہب کو ریاستی امور سے دور رکھا جائے۔

سولہویں صدی میں جب مارٹن لوتھر نے رومن کیتھولک چرچ کو چیلنج کر کے پروٹیسٹنٹ فرقے کی بنیاد رکھی، تو اس فرقے کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔

یورپ ایک شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا اور سترہویں صدی میں شروع ہونے والی 30 سالہ مذہبی جنگوں نے 60 لاکھ سے زیادہ انسانوں کو موت کی آغوش میں دھکیل دیا۔

پہلے کیتھولک فرقے کے لوگوں نے ہزاروں پروٹیسٹنٹس کو جلایا یا ان کا قتل عام کیا، جس میں سولہویں صدی میں پیرس کا مشہور قتل عام بھی شامل ہے۔

اس واقعے میں 10 ہزار سے زیادہ پروٹیسٹنٹس کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ بعد کے ادوار میں جب پروٹیسٹنٹ فرقے کو عروج حاصل ہوا تو اس نے رومن کیتھولک فرقے کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا۔

جان کیلون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے سامنے کئی کیتھولکس کو زندہ جلوایا۔

یورپ نے ایک طویل خانہ جنگی اور مذہب کے نام پر لڑائیوں کے بعد سیکھا کہ مذہب انسان کا نجی معاملہ ہونا چاہیے اور ایک شہری کا مذہب، رنگ یا ذات کچھ بھی ہو، ایک ریاست کے شہری ہونے کے ناطے اسے برابر کے حقوق ملنے چاہییں۔

یورپ کی ترقی کے حوالے سے جہاں مختلف وجوہات کا تذکرہ کیا جاتا ہے وہاں ایک وجہ مذہبی رواداری بھی ہے، جس نے دوسرے مذاہب اور مسیحیت میں دوسرے فرقے کے لوگوں کو ایسے ممالک میں آزادی سے رہنے کی اجازت دی جہاں ان کے فرقے یا مذہب کی اکثریت نہیں تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان میں سے بہت سارے لوگ تاجر طبقے کے تھے، جنہوں نے اپنی کاروباری صلاحیتوں کو ان معاشروں کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کیا۔

مثال کے طور پر مذہبی منافرت کے ستائے ہوئے بہت سارے لوگوں نے ہالینڈ میں پناہ لی اور اس چھوٹے سے ملک کو یورپ کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانے کے لیے اپنی صلاحیتیں استعمال کیں۔

بیسویں صدی میں کئی ممالک نے جو ترقی کی منازل طے کیں اس میں ایک اہم عنصر مذہب اور ریاست کی علیحدگی بھی تھا۔

ترکی اور لیبیا نے جدیدیت کا راستہ انہی خطوط پر استوار کیا جبکہ اشتراکی ریاستوں نے بھی مذہب اور ریاست کو علیحدہ کر کے دن دگنی رات چگنی ترقی کی اور ریاستی امور کے حوالے سے یہ نہیں دیکھا گیا کہ کس کا کیا مذہب، فرقہ یا ذات ہے بلکہ اس کی انتظامی اور دوسری نوعیت کی صلاحیتوں کو اہمیت دی گئی۔

پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو غیر مسلموں کی آبادی کی شرح تقریباً 25 فیصد تھی۔ محمد علی جناح نے جس ریاست کا خاکہ پیش کیا، کئی ناقدین کے خیال میں وہ سیکولرازم سے مشابہت رکھتا تھا لیکن بدقسمتی سے تخلیق پاکستان کے فوراً بعد مذہبی تنظیموں نے نعرہ لگانا شروع کر دیا کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بننا چاہیے، جس کی وجہ سے 50 کی دہائی میں پہلی مرتبہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا۔

افغان جہاد کی وجہ سے ملک میں مذہبی نفرت میں اضافہ ہوا اور 90 کی دہائی میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں فرقہ ورانہ فسادات ہوئے، جن میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے اور اندرونی طور پر نقل مکانی بھی ہوئی۔

اس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ لوگوں کو قتل کیا گیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکولرازم کے حوالے سے ابہام ختم کیے جائیں اور پروپیگنڈے کا شکار ہونے کی بجائے ان عوامل پر سوچا جائے جن کی وجہ سے یورپ نے سیکولرازم کو نافذ کیا اور ترقی کی منازل طے کر کے مذہبی رواداری کو فروغ دیا۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ