لائن آف کنٹرول پر چند روز قبل نمازِ عید کے دوران پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر نے حسب عادت کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا جو بیان دے دیا اس پر عوامی ردعمل جاننے کے لیے میں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مختلف مکتب فکر سے رابطہ کیا۔ یقین مانئے، ایک بھی شخص تیار نہیں ہوا بلکہ بنا آنکھ ملائے اور پہلو بچائے دوسری جانب چل دیئے۔
ایک بظاہر وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جنرل عاصم منیر کا تحریک انصاف اور اس کے قائد پر جاری مبینہ ظلم پر کشمیری انتہائی برہم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر کشمیری عمران خان کے دیوانے ہیں۔
دوسری وجہ پاکستان کی تبدیل ہوتی کشمیر پالیسی اور تیسری یہ کہ ریاست کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد اندرون کشمیر حالات نے کشمیریوں پر اتنا خوف طاری کیا ہے کہ وہ پاکستان کا نام لینے کا رسک نہیں لیتے۔
انڈیا کی مختلف ریاستوں میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بلڈوزر پالیسی سے سبھی خوف زدہ ہیں۔ البتہ عوام کے بیشتر طبقے دبی دبی زبان میں سوال اٹھا رہے ہیں کہ کشمیریوں کے ہاتھ میں بندوق تھما کر پاکستان نے آخر کیا حاصل کیا؟
جو جواب دیتے وہ سرزمین کشمیر میں شاید نہیں ہیں۔
بیشتر کشمیری کل تک آزادی یا الحاق پاکستان کی خاطر بڑے بڑے جلسے جلوس کیا کرتے تھے لیکن آج وہ پاکستان کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں اور بعض خود کو انڈین ثابت کرنے کی دوڑ میں ہیں۔
لیکن کیا انہیں انڈین ہونے کا اعزاز دیا جا رہا ہے؟
نیشنل کانفرنس کے ایک سرکردہ رہنما کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو مرکزی دھارے یا مینسٹریم سے وابستہ رہنما اور سابق وزرا اعلی کئی سالوں اور مہینوں تک جیلوں میں بند نہیں رکھے جاتے۔ دراصل انڈیا نے کشمیریوں پر کبھی بھروسہ نہیں کیا۔
نیشنل کانفرنس کے اس رہنما کا مزید کہنا ہے کہ ’انڈیا نے کشمیریوں کے لیے انڈین ہونے کا الگ پیمانہ رکھا ہے جس میں ملک کے ایک خاص طبقے کو ستر سال کے الحاق کے باوجود پاکستان کی موہوم سی لکیر نظر آتی ہے۔‘
برصغیر کی تقسیم کے بعد انڈیا کی زور زبردستی اور پاکستان کے غلط ہھتکنڈوں کے باوجود کشمیری قوم آگے بڑھنے سے نہیں رکی۔
والٹر لارینس سمیت بیشتر مورخ اور سیاسیات کے ماہر لکھتے ہیں کہ ’کشمیریوں کے ڈی این اے میں ظلم اور جبر سہنے اور زندہ رہنے کی مضبوط حس موجود ہے۔ سات سو سال سے وہ کبھی مغلوں تو کبھی افغانوں، کبھی سکھوں اور کبھی ڈوگروں کی بے رحمی کا شکار ہوچکے ہیں مگر ہر دور میں یہ قوم ابھری اور زندہ رہی۔‘
گذشتہ ستر سال میں خطے میں محال ہی کبھی امن قائم ہوا۔ سنتالیس کے حق خودارادیت کے نعرے کو انڈیا نے پہلے اندرونی خودمختاری کے شیشے میں ڈھال کر اسے اندرونی مسلہ بنا دیا پھر اندرونی خودمختاری کا جنازہ پڑھ کر اسے ریاست بھی نہیں رہنے دیا بلکہ پھر یونین ٹریٹری بنا کر خطے کے حصے بخرے کر دیئے۔
پاکستان نے اپنی ہی پالیسی کی عصمت دری کی جب مسئلے کو بین الاقوامی سے باہمی مسئلے تک محدود کر دیا اور پھر چار پوائنٹ پر لا کر انڈیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب پانچ سال قبل انڈیا نے کشمیر کے قضیے کی نوعیت ہی بدل کر رکھ دی تو پاکستان کے کھوکھلے بیانات کسی نے نہیں سنے۔ ایسے میں جب جنرل عاصم منیر اپنا ملک جس طرح چلا رہے ہیں اس کے بعد جب وہ کشمیر کی بات کرنے لگتے ہیں تو کشمیر میں کسی نے اس کو سننا بھی گوارا نہیں کیا۔
اس پس منظر میں انڈین میڈیا کا بڑا حصہ موقعے کو غنیمت جان کر یہ بیانیہ شروع کرتا ہے کہ کشمیر میں جہاں چند برسوں تک پاکستان کے حق میں نعرے لگتے تھے، چودہ اگست کو پرچم لہرایا جاتا تھا یا پاکستانی کرکٹ میچ کے جیتنے پر پٹاخوں کا شور ہوتا تھا وہاں عوام پاکستان کا اب نام تک نہیں لیتے۔
انڈیا کی سراغ رساں ایجنسی کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے حالیہ ایک گفتگو کے دوران اس بات کو دہرایا کہ 2019 کے اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے بی جے پی کے فیصلے کے بعد عوام پاکستان کو بھول چکے ہیں اور کشمیر میں پاکستان ختم شُد ہے۔
سوشل میڈیا پر اس پر کئی بار بحث ہوئی اور انڈیا نواز سیاست دان اس بیانئے کی خوب تشہیر کرتے ہیں لیکن بقول سوشل ایکٹوسٹ سجاد راتھر ’خود کو انڈین کہنے میں اتنی مشکل نہیں تھی لیکن ہندوتوا جماعتیں صرف انڈین ہونے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ کشمیری مسلمانوں کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگا دیکھنا چاہتی ہیں اور جس میں بعض مقامی اشخاص ان کی مدد کر رہے ہیں۔‘
کشمیریوں کو چاہے وہ پنڈت ہوں یا مسلمان دونوں کو اب دونوں ملکوں کی پالیسی اور سوچ کا اچھا ادراک ہوا ہے۔
اگر کشمیری پنڈتوں کو انڈیا میں ووٹ بٹورنے کے لیے بی جے پی نے استعمال کیا تو پاکستان نے مسلمانوں کو بندوق تھما کر دہشت گرد بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
لیکن کشمیری پنڈتوں اور مسلمانوں کی سوچ کہیں میل نہیں کھاتی ہے۔ پنڈتوں نے کبھی آزادی یا پاکستان نواز ہونے کا ڈراما نہیں کیا بلکہ روز اول سے انڈیا کے ساتھ خود کو گردانا۔
مسلمان مینسٹریم، آزادی اور پاکستان نوازوں میں تقسیم رہی۔ اس وقت خطے میں مینسٹریم سیاست کا غلبہ ہے، آزادی نواز منظر نامے سے غائب ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان نوازوں کا وجود تقریبا ختم ہو چکا ہے۔
کشمیری پنڈتوں کی تقریبا ڈیڑھ لاکھ آبادی سن نوے میں تشدد کی وجہ سے وادی سے نکل گئی جس کے بارے میں اکثر مسلمان کہتے ہیں کہ اگر وہ انڈیا نواز تھے تو ان کو بھاگنے کی بجائے بندوق برداروں کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا جبکہ پنڈت مسلمانوں پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ بندوق برداروں سے بچانے کے لیے مسلمانوں نے ان کا دفاع نہیں کیا۔
سوشل میڈیا کی سپیسز میں شدید تکرار کے باوجود دونوں برادریاں ایک دوسرے پر اعتماد کی بحالی کی کوشش کر رہی ہیں لیکن جہاں مسلمانوں میں کشمیر فائیلز یا مسلم کش بیانات دینے پر پنڈتوں کے بارے میں شکوک موجود ہیں وہیں مسلمانوں کے بارے میں یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ واقعی دل سے انڈین اور پاکستان ختم شُد کہانی بن گئے ہیں۔
پس پشت کچھ گروہ ہیں جو مذہبی جذبات ابھارنے کی آڑ میں اشتعال دے رہے ہیں اور کشمیریوں کو زیر کرنے یا انہیں سرنڈر کروانے پر جنونیت سے کام لے رہے ہیں۔
کشمیری بس تماشا اہل کرم دیکھتے ہیں۔
انڈین بن کر قبولیت نہیں، پاکستان بھولنے کا یقین نہیں،
ایسے میں کشمیری کرے تو کیا کرے؟
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔