انڈین انتخابات کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے اسے دیکھ کر ہر پارٹی خوشی منا رہی ہے۔
بی جے پی اس لیے خوش ہے کہ وہ حکومت بنائے گی اور کانگریسی اتحاد اس لیے بھنگڑے ڈال رہا ہے کہ وہ 200 سے زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہو گیا۔
اور تو اور میں بھی خوش ہوں۔ اب چاہیں آپ مجھے بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ ہی کیوں نہ سمجھیں، پر میں اپنے جذبات کا اظہار کر کے رہوں گا۔
اصل میں جب بھی کوئی سیانا شخص غلط ثابت ہوتا ہے تو نہ جانے کیوں میری روح تک سرشار ہو جاتی ہے۔ انڈین الیکشن نے مجھے کچھ ایسا ہی سرور دیا ہے۔
اس الیکشن سے پہلے حسب روایت ضرورت سے زیادہ سیانے صحافیوں نے انتخابی نتائج کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی تھیں کم و بیش وہ تمام ہی غلط ثابت ہوئیں۔
کہا یہ جا رہا تھا کہ بی جے پی 325 سے 390 کے درمیان نشستیں باآسانی جیت لے گی، ٹی وی چینلوں نے جو ایگزٹ پول کیے تھے ان میں بھی لگ بھگ یہی پیش گوئی کی گئی تھی۔ خود بی جے پی کا نعرہ تھا ’اب کی بار، چار سو پار۔‘
لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ بی جے پی اتحاد کو ملیں 293 نشستیں جبکہ کانگریسی اتحاد کو 232۔
یاد رہے 2019 میں اکیلی بی جے پی 303 نشستیں لے گئی تھی جبکہ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اس کی سیٹیں 353 بن گئی تھیں۔
اب وجوہات جو بھی ہوں مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ میڈیا پنڈتوں نے جو اندازے لگائے تھے اور دانش وروں نے جو تجزیے پیش کیے تھے وہ سب غلط نکلے۔
دراصل مجھے ان لوگوں سے چِڑ ہے جو خود کو بہت زیادہ سمارٹ سمجھتے ہیں، سو ایک طرح سے ان انتخابی نتائج نے نام نہاد سمارٹ لوگوں کو بھی بےنقاب کیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے آخر ایسا کیا ماحول تھا جس کی بنیاد پر ہر کسی کو یقین تھا کہ بی جے پی آسانی سے جھاڑو پھیر دے گی؟
وہ ماحول یہ تھا کہ پورا میڈیا نریندر مودی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ کہنے کو تو اینکر پرسنز مودی جی کا انٹرویو کرتے تھے مگر اس انٹرویو میں مودی جی کو بھگوان کا اوتار سمجھ کر ہی سوال کیے جاتے تھے۔
جب پے درپے اس طرح کے انٹرویو ہوئے تو مودی جی کو خود بھی یقین ہو گیا کہ وہ انسان نہیں بلکہ کوئی مافوق الفطرت ہستی ہیں اور انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ بات کہہ بھی دی۔
جب میں نے مودی جی کا یہ بیان پڑھا تو مجھے یقین نہیں آیا، میں سمجھا شاید ان کے کسی مخالف نے ٹوئٹر پر چٹکلا چھوڑا ہے۔
مگر جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ نیوز 18 کی ایک خاتون صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے واقعی انہوں نے یہ کہا کہ ’پہلے جب تک ماں زندہ تھی مجھے لگتا تھا کہ شاید حیاتیاتی طور پر ہی میرا جنم ہوا ہے۔
’ماں کے جانے کے بعد زندگی میں جو تجربات مجھے حاصل ہوئے انہیں دیکھ کر مجھے یقین ہو چکا ہے۔ ۔ ۔ کہ پرماتما نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ توانائی مجھے حیاتیاتی جسم سے نہیں ملی ہے، ایشور نے مجھ سے کوئی کام لینا ہے۔۔۔‘
میں نے اس لیے یہ بیان پورا نقل نہیں کیا کہ میں آپ کا مزا خراب نہیں کرنا چاہتا، آپ خود مودی جی کا یہ انٹرویو تلاش کرکے دیکھیے اور سر دھنیے کہ کیسے مودی جی گنگا میں ایک کشتی میں جاتے ہوئے خاتون صحافی کو بتا رہے ہیں کہ وہ دراصل آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہیں اور وہ اینکر پوری سنجیدگی سے یہ بات سن رہی ہے۔
اسی طرح مشہور انڈین اینکر ارنب گوسوامی نے مودی جی کا جو انٹرویو لیا وہ کچھ اس قسم کا تھا جس میں اگر مسٹر گوسوامی کا بس چلتا تو وہ مودی جی کے سامنے لیٹ کر ان کی پوجا شروع کردیتے۔
الیکشن میں بی جے پی اتحاد کے لیے دو تہائی اکثریت کا ماحول صرف میڈیا نے ہی نہیں بنایا تھا بلکہ حکومتی ادارے اور پرائیویٹ کمپنیاں بھی اس میں پیش پیش تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا کی بڑی کمپنیوں نے بی جے پی کو دل کھول کر عطیات دیے جبکہ دوسری طرف محکمہ انکم ٹیکس نے کانگریس کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جس میں پارٹی کے ڈھائی کروڑ ڈالر رکھے تھے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے کانگریس کی داد رسی کی۔
اس ماحول میں جب الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو سب پنڈت اور سیانے حیران رہ گئے، کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ نتیجہ نہیں تھا۔
بےشک نریندر مودی ہی تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جائیں گے مگر اس مرتبہ انہیں اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑے گا اور اتحادی بھی وہ جو بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت انگیز پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔
الیکشن نتائج کے بعد جہاں بہت سے لوگوں نے تبصرے کیے وہاں مجھے ایک مبصر کی یہ ٹویٹ بہت پسند آئی کہ ’مودی اب تعلیم، غربت، معیشت، ڈیجیٹل انڈیا اور ٹیکنالوجی کی بات کر رہا ہے۔
’جبکہ انتخابی مہم کے دوران اس کا سارا وقت یہ کہنے میں گزرتا تھا: مسلمان، منگل سوترا، مجرا، مٹن، مغل، مچھلی، مسلم لیگ، گھس بیٹھیا، زیادہ بچے، لو جہاد، ووٹ جہاد، جماعت۔۔۔‘
بے شک اس الیکشن نے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے مگر حکومت اسی کی بنے گی اور مودی ہی وزیر اعظم ہو گا۔
سو، مجھے کوئی خوش فہمی نہیں کہ انڈیا میں مسلمانوں کی زندگی بہتر ہو گی، وہ بیچارے اسی طرح آر ایس ایس کے غنڈوں کا نشانہ بنتے رہیں گے اور انہیں جے شری رام کہنے پر مجبور کرتے رہیں گے جیسے وہ گذشتہ 10 برس سے کرتے چلے جا رہے ہیں۔
اگر ہمیں انڈین مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت انگیز سلوک پسند نہیں تو پہلے ہمیں اپنے ملک میں اس نفرت کی آگ کو بجھانا ہو گا جو ہم نے اقلیتوں کے خلاف بھڑکا رکھی ہے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے ملک میں تو ہم مذہب کے نام پر اقلیتوں کی بستیاں اجاڑ دیں اور کسی غریب کو زندہ جلا دیں اور جب یہی کام آر ایس ایس کے غنڈے انڈیا میں کریں تو ان پر لعن طعن کریں۔
اتنی منافقت کی گنجائش نہیں۔
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔