بجٹ ’زیادہ‘ بہترین انتقام ہے

پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا: جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ مسلم لیگ ن اگر چاہے تو اس پر گرہ لگا سکتی ہے کہ بجٹ ’زیادہ بہترین‘ انتقام ہے۔

12 جون، 2024 کو اسلام آباد پولیس کے اہلکار بجٹ دستاویزات پارلیمنٹ کی عمارت میں پہنچا رہے ہیں (اے ایف پی)

پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا: جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ مسلم لیگ ن اگر چاہے تو اس پر گرہ لگا سکتی ہے کہ بجٹ ’زیادہ بہترین‘ انتقام ہے۔

موجودہ معاشی حالات میں حکومت سے مثالی بجٹ کی توقع یقیناً نہیں کی جا سکتی تھی۔ تاہم ایک جمہوری حکومت کے بارے میں یہ حسن ظن ضرور تھا کہ وہ اکانومی اور پولیٹیکل اکانومی میں فرق کو لازماً مدنظر رکھے گی۔

افسوس کہ ایک جمہوری حکومت بھی اعدادو شمار کے سفاک کھیل کی اسیر ہو کر رہ گئی اور اس نے پولیٹیکل اکانومی کو نظر انداز کر دیا۔

اکانومی اور پولیٹیکل اکانومی میں بڑا گہرا اور جوہری فرق ہے۔ اس فرق کو سیاست دان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ اکانومی یہ ہے کہ بے نیازی اور سرد مہری سے معاشی اہداف اور اعدادو شمار مرتب کر دیے جائیں اور کسی کو کوئی پرواہ نہ ہو نہ اس کے نتیجے میں عوام پر کیا بیتے گی۔ یہ ایک بے رحم عمل ہے۔

پولیٹیکل اکانومی یہ ہوتی ہے کہ معاشی اعدادو شمار بھی مرتب کیے جائیں مگر ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے عوام پر کیا اثرات پڑیں گے۔ یہ معاشی میزانیہ مرتب کرتے ہوئے اپنے عوام کے مسائل اور مطالبات بھی مدنظر رکھتی ہے اور بدتر حالات میں بھی ہر ممکن حد تک عوام کا خیال رکھتی ہے۔ یہ ایک مہربان مشق ہوتی ہے۔

یعنی پولیٹیکل اکانومی معاشی حقائق نظر انداز کر کے پاپولر معیشت کا سراب کھڑا کرنے کا نام نہیں۔ یہ صرف  اس چیز کا نام ہے کہ معیشت کے اعدادو شمار کے بے رحم کھیل میں عوام کی حالت زار کو بھی ہر ممکن حد تک مد نظر رکھا جائے۔

غیر منتخب حکومتیں ہوں یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے معاشی ماہرین ہی فیصلہ ساز ہوں تو ترجیح صرف اعدودوشمار کی نامہربان اکانومی ہو سکتی ہے کیونکہ اپنے اقتدار کے لیے وہ نہ عوام کے محتاج ہوتے نہ انہیں عوام کو خوش رکھنے کی حاجت ہوتی ہے لیکن جب ایک جمہوری حکومت موجود ہو تو گمان کیا جاتا ہے کہ وہ معاملات کو صرف اکانومی کی آنکھ سے نہیں دیکھے گی بلکہ پولیٹیکل اکانومی کو بھی  بروئے کار لائے گی کیوں کہ وہ عوامی حکومت ہے اور اس کے مستقبل کا انحصار عوامی رائے پر ہے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت سے بھی کسی معاشی معجزے کی کوئی توقع نہ تھی۔ لیکن اس حکومت نے پولیٹیکل اکانومی کو جس بے نیازی سے نظر انداز کیا یہ پریشان کن اور تکلیف دہ امر ہے۔

معلوم نہیں اس بے نیازی کی وجہ کیا ہے۔ معاشی دباؤ بہت تھا، معاشی اہلیت کا فقدان تھا یا وہ بھی راز کی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ یہاں اقتدار کے کھیل میں عوام کی حیثیت وہی ہے جو خواب میں واؤ معدولہ کی ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ اس کی حیثیت کے مطابق معاملہ کیا جائے۔

بجٹ تو مشکل ہونا ہی تھا۔ سمجھنے کی بات مگر یہ ہے کہ یہ مشکل کوئی کیوں برداشت کرے؟ ظاہر سی بات ہے مشکل فیصلے اسی لیے کیے جاتے ہیں اور اسی لیے برداشت کیے جاتے ہیں کہ اس میں معیشت کی سمت درست ہو سکے اور تھوڑی سی مشکل کے بعد بالآخر معاملات بہتری کی جانب جا سکیں۔ سوال یہ ہے کہ اس بجٹ میں کیا کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکے کہ یہ درست سمت میں لیا گیا ایک کڑوا فیصلہ ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بجٹ صرف آئی ایم ایف سے لینے اور اس کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کا نام نہیں ہوتا۔ اس کا منطقی مقصد اپنی معیشت کو کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ بجٹ ایک ایسا اضطراری عمل ہے جس میں آئی ایم ایف کے مطالبات کی بجا آوری میں اعدادوشمار کا کھیل تو نمایاں ہے لیکن معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کچھ نہیں۔

معیشت تب پھلتی پھولتی ہے جب ماحول سازگار ہو، جب سرمایہ کاری ہو رہی ہو، جب روپیہ گردش میں ہو۔ جب معاشی عمل بحال ہوتا ہے تو کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس خود بخود بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگر مقصد عوام کی رگوں سے ٹیکس نکال نکال کر صرف اعداد و شمار کا میزانیہ بہتر کرنا ہو تو یہ وہ سراب ہے جو سب کچھ لے ڈوبے گا۔

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس دگنا کر کے پریشانی اور تناؤ میں تو اضافہ کیا جا سکتا ہے اس سے معیشت نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اسی طرح ایکسپورٹ پر ٹیکس میں اس طرح کا خوف ناک اضافہ کر کے معیشت کو ادھیڑا تو جا سکتا ہے اس کی رفو گری نہیں ہو سکتی۔ ایسے اقدامات کاغذات کا پیٹ بھرنے اور کارروائی ڈال کر آئی ایم ایف کے حضور پیش کرنے کے کام تو آ سکتے ہیں لیکن اس سے معیشت کی بنیادی ہل جائیں گی۔

معیشت نہیں پھلے پولے گی تو اس منجمد ماحول میں تنخواہ دار طبقے کی رگوں سے سونے کے انڈے کب تک نکالے جا سکیں گے؟ کب تک پٹرول بجلی گیس کی آڑ میں حکومتی نااہلی کا تاوان عوام سے وصول کیا جاتا رہے گا۔  ایک دن آئے گا بلبلہ پھٹ جائے گا۔

اگر اشرافیہ کی ناز برداریاں پلے کی طرح موجود ہیں، اگر افسر شاہی کے اللے تللے، مراعات  اور اس کے کلب موجود ہیں، اگر بعض اعلیٰ مناصب پر فائز لوگوں کو ٹیکس سے استثنی اسی طرح حاصل ہے، اگر نان فائلر نامی طبقہ اور اصطلاح اسی طرح قائم دائم ہے، اگر معیشت دشمن بیوروکریسی کا ڈھانچہ وہی کا وہی ہے تو بجٹ کا یہ گورکھ دھندا مصائب میں اضافہ تو کر سکتا ہے کمی نہیں۔ یہ آئی ایم ایف کو تو مطمئن کر سکتا ہے عوام کو نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ