زندگی کا پہلا سرٹیفکیٹ جیل میں ملا: کراچی کے ایک قیدی کی داستان

کراچی سینٹرل جیل میں قید کے دوران آئی ٹی اور چینی زبان کے کورس مکمل کرنے والے محمد آصف نے بتایا کہ سند دیے جانے کے وقت ’مجھے فخر محسوس ہو رہا تھا اور میں نے بعد میں یہ بھی سوچا کہ کاش مجھ سے غلطی نہ ہوتی اور یہ سند مجھے میرے بیوی بچوں کے سامنے دی جاتی۔‘

حال ہی میں کراچی کی سینٹرل جیل میں ایک کانووکیشن منعقد ہوا، جس کے دوران کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور لینگویج کورس کرنے والے 248 قیدی طلبہ کو اسناد دی گئیں اور پوزیشن ہولڈر طلبہ میں 25، 25 ہزار روپے اور تحائف بھی تقسیم کیے گئے۔

محمد آصف بھی ان ہی میں سے ایک ہیں، جو قتل کے الزام میں پانچ سال سے جیل میں ہیں اور ان کا کیس ٹرائل پر ہے۔ انہوں نے جیل میں قید کے دوران آئی ٹی اور چینی زبان کے کورس مکمل کیے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں محمد آصف نے بتایا: ’میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کی سینٹرل جیل ایک اصلاح گھر بھی ہے۔ جیل انتظامیہ کی جانب سے قیدیوں کو سیدھی راہ پر لانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے سکل ڈیولپمنٹ اینڈ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنایا گیا ہے، جس سے مجھ سمیت بہت سے قیدی مستفید ہو رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’میں نے آئی ٹی کورس مکمل کیا اور اب میں نے چینی زبان کا کورس مکمل کیا ہے، جس میں میری پہلی پوزیشن آئی ہے۔ کانووکیشن کی تقریب میں مجھے جو سند دی گئی، یہ میری زندگی کا پہلا سرٹیفکیٹ ہے، جو مجھے باعزت انداز میں دیا گیا۔‘

محمد آصف کے مطابق کانووکیشن کا دن ان کے لیے نہایت ہی اہم تھا، جب ان کا نام پکارا گیا اور وہ سٹیج پر گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’سینکڑوں لوگ میرے سامنے تھے۔ میرے لیے تالیاں بجائی جا رہی تھیں۔ مجھے گاؤن پہنایا گیا اور جب مجھے جیل افسران نے سند دی تو دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔ میں خوش تھا لیکن الفاظ نہیں کہ کیسے بیان کروں۔ مجھے فخر محسوس ہو رہا تھا اور میں نے بعد میں یہ بھی سوچا کہ کاش مجھ سے غلطی نہ ہوتی اور یہ سند مجھے میرے بیوی بچوں کے سامنے دی جاتی۔

’لیکن جیل کے اندر میں نے جو بھی سیکھا اس سے میرے اندر ایک مثبت توانائی آئی ہے اور میری سوچ بدلی ہے۔ میں پر عزم ہوں کہ جیل سے باہر جانے کے بعد میں کسی ایسے ادارے سے جڑوں گا، جہاں میں اپنی مہارت اور سکلز کو بروئے کار لا سکوں۔‘

سند حاصل کرنے والوں میں 22 سالہ نعمان عبدالسلام بھی شامل ہیں، جو ڈکیتی کے کیس میں جیل میں ہیں۔ انہوں نے آئی ٹی کا مختصر کورس مکمل کیا ہے اور وہ دو سال سے قید ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں نعمان نے بتایا: ’جو کورسز میں نے جیل میں کیے وہ میں اپنی عام زندگی میں نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مالی حالات کمزور تھے، جس کی وجہ سے میں تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکا۔ مجھ پر گھر کی ذمہ داریاں تھیں۔ میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا تو کام پر لگ گیا اور مجبوریوں اور خستہ حالات کے باعث غلط صحبت کا شکار ہو گیا، جس کی وجہ سے میں جیل میں ہوں۔‘

بقول نعمان: ’جیل میں جو دو سال گزارے اس دوران میں نے اپنے آپ میں بہتری محسوس کی۔ جیل انتظامیہ نے قیدیوں کے لیے جو دینی اور دنیاوی تعلیم اور ہنر سکھانے کے لیے کچھ کورسز رکھے ہیں، وہ میں نے ایک ایک کر کے سیکھے۔ اب جب میں جیل سے رہا ہو جاؤں گا تو خود کو ضائع نہیں کروں گا۔ اب میں اتنا قابل ہوگیا ہوں کہ مجھے امید ہے کہ گھر کا سہارا بنوں گا۔‘

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) عماد حسین چانڈیو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہم نے گریجویشن کی تقریب رکھی تھی، جس کا مقصد یہی تھا کہ یہ قیدی  معاشرے میں جاکر باعزت روزگار کما سکیں اور  ان کورسز کے ذریعے سے قیدیوں کی ذہن سازی ہو سکے، جس کا فائدہ انہیں یہ ہوگا کہ ان کی سزا میں معافی بھی ہو سکے گی۔‘

عماد چانڈیو نے مزید بتایا کہ ’الخدمت کا تعاون کمپیوٹر کورسز سمیت تین لینگویج کورسز میں ہے اور گورنمنٹ باڈی سٹیوٹا کا بھی تعاون ہمیں حاصل ہے جبکہ آرٹا کورسز جیل انتظامیہ خود کروا رہی ہے۔ یہ تمام معاملات کوئی ایک دو سال سے نہیں بلکہ 12 سال سے یہاں پر یہ تمام سرگرمیاں جاری ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی