ہنٹر بائیڈن کی سزا نے ٹرمپ کے سازشی بیانیے کو نئی ہوا دی

جو بائیڈن کے بیٹے کی سزا کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے اس وقت ہتھیار بنا دیا ہے جب چند ہفتے قبل ٹرمپ کو ایک مقدمے میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 15 جون، 2024 کو مشی گن میں ایک کنونشن کے دوران تقریر کرنے آ رہے ہیں (اے ایف پی)

تین ہفتے کے اندر دو غیر معمولی مقدمات جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلے مقدمے میں ایک سابق امریکی صدر کو سنگین جرائم کا مرتکب ہونے کے 34 الزامات میں قصور وار پایا گیا۔ ان جرائم کا تعلق فحش فلموں کی سابق اداکارہ کو خاموشی اختیار کرنے کے لیے رقم دینے کے ساتھ ہے۔

تازہ ترین مقدمے میں امریکہ کے موجودہ صدر کے بیٹے کو اس وقت پستول خریدنے کے جرم میں سزا سنائی گئی، جب وہ منشیات استعمال کرتے تھے۔

اس طرح انہوں نے اسلحے کی خریداری کا فارم بھرتے ہوئے جھوٹ بولا کہ وہ منشیات استعمال نہیں کرتے۔

پہلے مقدمے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مجرم قرار دیا گیا تو انہوں نے اور ان کے حامیوں نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے شور مچایا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔

ان پر مقدمہ نہیں بنایا جانا چاہیے تھا۔ ٹرمپ بے گناہ ہیں اور یہ کہ نظامِ انصاف کو ٹرمپ کے خلاف ہتھیار بنایا گیا ہے۔

اس نظام کی ڈور ’بد دیانت جو بائیڈن‘ کے ہاتھ میں ہے، جو نومبر میں اپنے حریف کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ نظامِ انصاف بدعنوانی پر مبنی ہے۔ جج بد دیانت ہے۔

’سوروس کے مدد یافتہ‘ ڈسٹرکٹ اٹارنی نے ان پر مقدمہ بنایا۔ یہودی مخیر شخصیت جارج سوروس کے ذکر کے بغیر کوئی اچھا سازشی نظریہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔

دوسرے مقدمے میں صدر نے مسائل کے شکار اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو سنائی جانے والی سزا کے بارے میں مختصر بیان دیا۔

جی سیون کے اجلاس کے موقعے پر صدر بائیڈن نے کہا: ’مجھے اپنے بیٹے پر انتہائی فخر ہے۔ انہوں نے نشے کی لت سے جان چھڑوائی۔ وہ ان قابل اور نفیس ترین لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں میں جانتا ہوں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں مطمئن ہوں کہ مجھے کچھ نہیں کرنا۔ میں نے کہا کہ میں جیوری کے فیصلے کو تسلیم کرتا ہوں۔ میں ایسا ہی کروں گا اور میں اسے معاف نہیں کروں گا۔‘

ان باتوں سے رویے کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ اب رونا دھونا چھوڑ دیں گے؟

وہ یہ تسلیم کر لیں گے کہ ان کے خلاف مقدمہ درست انداز میں قائم کیا گیا۔ قانون پر عمل کیا گیا جس کے نتیجے میں 12 ارکان پر مشتمل جیوری نے سزا سنائی؟

کیا اب وہ اس بات کو بادل نخواستہ قبول کر لیں گے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور کوئی بھی اس سے بالاتر نہیں، چاہے آپ سابق صدر ہوں یا صدر کے بیٹے؟

مختصر یہ کہ کیا وہ فضول باتوں اور امریکی جمہوریت کی تین مساوی شاخوں میں سے ایک عدلیہ کو نقصان پہنچانے سے باز رہیں گے جو ایک خطرناک عمل ہے؟

میں جانتا ہوں، میں جانتا ہوں۔ میرے مندرجہ بالا حصے کا جواب آپ تحریر مکمل کرنے سے پہلے دے دیں گے۔

بلاشبہ ٹرمپ ایسا نہیں کریں گے۔ اس کی بجائے ان کا مقدمہ سازشی نظریات کو نئی شکل دے رہا ہے۔

اب ٹرمپ اور ان کے حامی کہہ رہے ہیں کہ ہنٹر بائیڈن کے مقدمے کا مقصد توجہ ہٹانا ہے۔ یہ معمول سے ہٹ کر ہے۔

ہنٹر کہیں زیادہ قصوروار ہیں اور ان جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں جن میں ان کے والد شریک سازشی ہیں۔

بائیڈن کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ بد دیانت محکمہ انصاف نے پستول کا جو معمولی الزام لگایا، اس کا مقصد توجہ ہٹانا ہے۔ چالاکی سے کام لیا گیا۔ ہم دھوکہ نہیں کھائیں گے۔ معاملہ واقعی ہنٹر (شکاری) اور شکار کا ہے۔

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ٹرمپ کے خلاف لائے گئے مقدمے کا واشنگٹن ڈی سی میں محکمہ انصاف سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یہ مقدمہ ریاست نیو یارک میں بنایا گیا۔ یہ وفاقی کیس نہیں تھا، لہٰذا یہ محکمہ انصاف کا معاملہ نہیں۔ اس میں اٹارنی جنرل میریک گارلینڈ شامل نہیں تھے اور یقینی طور پر اس کا جو بائیڈن سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

دوسری جانب ہنٹر بائیڈن کے خلاف مقدمہ وفاقی تھا۔ یہ وہ معاملہ تھا جس میں جو بائیڈن کے اٹارنی جنرل مداخلت کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کی۔

اگر آپ منطقی بات کر رہے تھے تو آپ کہیں گے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انصاف کا پہیہ بالکل اسی طرح گھوم رہا ہے جس طرح اسے گھومنا چاہیے۔

چاہے آپ کسی بے گھر شخص کے بیٹے ہوں یا صدر کے بیٹے، قانون آپ پر یکساں طور پر لاگو ہوگا۔

پھر بھی مسئلہ موجود ہے۔ آپ بہت آسانی سے یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ٹرمپ کی بجائے ہنٹر بائیڈن کے ساتھ نظامِ انصاف نے ناانصافی کی۔ یقینی طور پر انہوں نے ریوالور خریدنے کے لیے پس منظر کی پڑتال کا فارم بھرنے میں بد دیانتی سے کام لیا۔

لیکن عام طور پر اسے قانون کی معمولی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے، جس کی سزا بھی معمولی ہے، لیکن اس کی بجائے ہنٹر بائیڈن پر سنگین جرم میں ملوث ہونے کا جو الزام لگایا گیا اس میں قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

سنگین جرم کا مرتکب ہونے کا الزام عام طور پر صرف اس وقت لگایا جاتا ہے، جب اسلحہ غیر قانونی طور پر خریدا گیا اور بعد ازاں کسی جرم میں استعمال کیا گیا ہو۔

ایسا نہیں ہوا، اس لیے دلیل دی جا سکتی ہے کہ ہنٹر کے ساتھ سخت سلوک کیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کا سیاسی نعرہ ’ایم اے جی اے‘ (میک امریکہ گریٹ اگین) لگانے والا ہجوم چند وجوہات کی بنا پر پریشان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سب سے پہلے، یہ لوگ کسی بھی ایسے قانون کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں جو کسی شخص کے اسلحہ رکھنے کے حق کو محدود کرتا ہو۔

یہ یقین انہیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ محکمہ انصاف صدر کے بیٹے کی بڑی غلطیوں کو چھپا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان غلطیوں سے خود صدر کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

جو بائیڈن پر اپنے بیٹے کی کاروباری سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے کے الزامات بے تحاشا، حیران کن اور بغیر کسی ثبوت کے ہیں۔

پھر بھی بلا شبہ یہ سچ ہے کہ ہنٹر بائیڈن نے اپنے والد کے نام پر کاروبار کیا۔ بصورت دیگر یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ ہنٹر بائیڈن کو یوکرین کی ایک توانائی فرم کا ڈائریکٹر کیوں بنایا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کے والد اس وقت براک اوباما کے دور میں نائب صدر تھے، لیکن جوبائیڈن کے لیے کِک بیکس کا معاملہ؟

نامعلوم چینی رابطوں سے ملنے والی رقوم نے قدامت پسند برادری کو بہت پریشان کر دیا ہے۔

آپ واٹر گیٹ سکینڈل کی طرح معاملے کی مکمل چھان بین کرتے ہوئے پتہ لگا سکتے ہیں کہ رقوم کہاں سے آئیں لیکن اس بار یہ راستہ وائٹ ہاؤس کے موجودہ مکین کے دروازے کی طرف نہیں جاتا۔

ہنٹر بائیڈن کی زندگی مشکل رہی ہے۔ ان کی والدہ اور کمسن بہن ایک کار حادثے میں جان سے گئیں اور کچھ حد تک، وہ اپنے بو نامی جڑواں بھائی کے زیر سایہ زندگی گزارتے رہے جنہوں نے عراق جنگ میں جنگ لڑی اور کامیاب وکیل تھے۔

دماغ کے سرطان میں مبتلا ہو کر اپنی بے وقت موت سے پہلے ان کے سامنے ایک بڑا سیاسی کیریئر تھا۔ بو بائیڈن پسندیدہ شخصیت تھے۔

ہنٹرمسائل کا شکار ان کے جڑواں بھائی ہیں۔ ہنٹر کے رویے کے بارے میں عدالت میں سنے گئے کمزور ثبوت بائیڈن خاندان کے لیے اذیت ناک اور تکلیف کا سبب تھے۔

قصہ مختصر، کیا ہنٹر بائیڈن کو ملنے والی سزا صدر بائیڈن کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند ہو سکتی ہے؟

ہنٹر کو ملنے والی سزا اور اپنی اور جِل بائیڈن کی ان کے لیے محبت پر زور دیتے ہوئے جو بائیڈن کا بیٹے کی غلطی کھلے عام تسلیم کرنے سے درحقیقت بائیڈن کی ساکھ  میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ عمل ٹرمپ کا اپنے قانونی مسائل کا جواب دینے کے طریقے کے بالکل برعکس ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو بائیڈن ان اداروں کا احترام کرتے ہیں جو امریکہ کے قانونی نظام کو برقرار رکھتے ہیں، جبکہ ٹرمپ کسی بھی ایسے شخص یا کسی بھی معاملے پر حملہ کرتے ہیں، جو ان کی مخالفت کرتا ہے۔

منطقی اعتبار سے اس طرزِ عمل سے بائیڈن کو بہت زیادہ مدد ملنی چاہیے لیکن آخری مرتبہ منطق نے کب کوئی کردار ادا کیا تھا؟

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ