انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گجر ثقافت کی حفاظت کے لیے ’نور سینٹر‘

اپنے عجائب گھر میں شاہدہ ان چیزوں کو صرف ثقافت کے تحفظ کے لیے نہیں رکھتیں بلکہ وہ لوگوں کو گجر روایت سے غائب ہونے والی ثقافت کے بارے میں جاننے میں بھی مدد دیتی ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ قبائلی خاتون شاہدہ خانم نے ایک قبائلی عجائب گھر کھولا ہے جو کشمیر کی مشہور وولر جھیل اور ہرمکھ پہاڑ کے قریب گاؤں اراگم میں واقع ہے۔

گاؤں اراگم انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مرکزی بانڈی پورہ ضلع سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

اپنے عجائب گھر میں شاہدہ ان چیزوں کو صرف ثقافت کے تحفظ کے لیے نہیں رکھتیں بلکہ وہ لوگوں کو گجر روایت سے غائب ہونے والی ثقافت کے بارے میں جاننے میں بھی مدد دیتی ہیں۔

ان اشیا میں پرانے زمانے کے کپڑے اور اوزار شامل ہیں جیسے چرخی، چٹائیاں، جوتے، لکڑی کے برف میں استعمال ہونے والے بیلچے، مٹی سے بنے چولہے وغیرہ۔

شاہدہ نے عجائب گھر میں کڑھائی کی ہوئی ٹوپیاں (جسے گجری میں لشکرکہ کہا جاتا ہے)، لمبے گاؤن (قمیض)، زیورات (گچے) کا ذخیرہ محفوظ کر رکھا ہے اور مردوں کے لباس، بشمول شلوار قمیض، واسکٹ، انگو اور پگھیری (سر کا پوشاک)۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گجر ایک نسلی گروہ ہیں جو جموں و کشمیر، پاکستان، افغانستان اور جنوبی ایشیا کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں اور اپنے چرواہی اور خانہ بدوش طرز زندگی کے لیے مشہور ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں، یہ برادری گہرے جنگلات اور اکثر خطرناک پہاڑوں میں رہتی ہیں جو اس خطے کی کل آبادی کا 11.9 فیصد ہیں۔

جموں و کشمیر میں گجر برادری کے روایتی لباس اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے، شاہدہ خانم نے بانڈی پورہ سے سماجی علوم کی ڈگری حاصل کی ہے۔

شاہدہ نے نور سینٹر قائم کیا ہے جس کا مقصد بُنائی، کڑھائی، سلائی اور زیورات بنانے کے فن کو بحال کرنا ہے جو کبھی گجر خواتین کے لیے ضروری ہنر تھا۔

مرکز کو گاؤں اور وہاں کام کرنے والی خواتین کے لیے ایک کامیابی کی کہانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور وہ اس کی خدمت کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

تیزی آتی ہوئی جدت کے سبب خانہ بدوش قبائل کی نوجوان نسل ان روایات اور دستکاری میں دلچسپی کھو رہی ہے جو انہیں اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی تھیں۔

ان قبائل کے لوگ آسان زندگی کے لیے دوسرے پیشوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ روایتی ٹوپیاں بنانے کا فن، جو نسل در نسل منتقل ہوا اب معدوم ہو رہا ہے۔

ثقافت اور روایت کو بچانے کے لیے شاہدہ نے ایک پہل کی اور سال 2022 میں اپنے آبائی گاؤں آراگام میں نور سینٹر کا آغاز کیا۔

شاہدہ نے علاقے کی 50 کے قریب لڑکیوں کو ملازمت دی اور وہ انہیں سلائی، زیورات بنانے، جیسے مختلف ہنر سیکھنے کی تربیت دیتی ہیں۔

کڑھائی اور قبائلی مردوں اور عورتوں کے لیے روایتی لباس اور ٹوپیاں بنانا بچپن میں شاہدہ نے اپنے بزرگوں سے سیکھی ہیں، جن میں ان کی والدہ، سوزنی (سوئی کڑھائی کی تکنیک) کی ماہر ہیں اور ان کی بھابھی بنائی، سلائی اور کڑھائی کی تربیت یافتہ ہیں۔

اس اقدام کو کسی تنظیم یا سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے مالی اعانت فراہم نہیں کی گئی ہے لیکن اسے مقامی برادری کی طرف سے مثبت ردعمل ملا ہے۔

نور سینٹر سے تربیت پانے والے زیادہ تر طلبہ یا تو ثانوی یا پھر اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ یہ مرکز صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک کام کرتا ہے، ہر ایک ہنر کے لیے ایک گھنٹے کا تربیتی سیشن فراہم کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا