گھوٹکی: پابندی کے باوجود جرگہ، 24 قتل کا معاوضہ چھ کروڑ روپے

ضلع گھوٹکی کے شہر خان پور میں ہونے والے جرگے میں ساوند اور سندرانی برادریوں کے درمیاں 24 اموات کا معاوضہ طے کیا گیا، جس میں سیاسی رہنماؤں کے علاوہ پولیس افسران نے بھی شرکت کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی علی گوہر خان مہر کے گھر ’گوہر پیلس‘ میں پانچ جولائی کو منعقد ہونے والے جرگے کا ایک منظر  (غلام حسین)

سندھ کے ضلع گھوٹکی میں جمعے کی رات ہونے والے ایک قبائلی جرگے میں ساوند اور سندرانی برادریوں کے درمیاں سالوں سے جاری لڑائی کے نتیجے میں 24 اموات کا معاوضہ چھ کروڑ 36 لاکھ روپے رکھا گیا۔

خان پور شہر میں ہونے والے جرگے کے دوران سندرانی برادری پر ساوند برادری کے 13 قتل ثابت ہوئے، جس پر جرگے نے اول الذکر کو پابند کیا کہ وہ آخرالذکر کو تین کروڑ 21 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے گا، جب کہ ساوند برادری پر 11 افراد کے قتل کا جرمانہ تین کروڑ 15 لاکھ روپے مقرر کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی علی گوہر خان مہر کے گھر میں ہونے والے جرگے میں پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ سمیت مختلف رہنماؤں اور پولیس افسران نے شرکت کی۔

ضلع کندھ کوٹ میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سکھر کے شعبہ کمیپوٹر سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کرنے پر سندرانی برادری پر ایک کروڑ روپے معاوضہ رکھا گیا۔

ڈاکٹر اجمل ساوند نے 2015 میں فرانس کی یونیورسٹی جین مونٹ سینٹ ایٹین سے ای ہیلتھ مانیٹرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

جرگے نے دونوں برادریوں کو مستقبل میں مزید لڑائی نہ کرنے کی ہدایت اور پہل کی صورت میں دو کروڑ روپے جرمانے پر اتفاق کیا۔

چند سال قبل سندرانی اور ساوند برادریوں کے درمیان غیرت کے نام پر قتل کے بعد تنازع شروع ہوا تھا، جس میں اب تک دو درجن سے زیادہ افراد جان سے جا چکے ہیں۔

سندھ کا جرگہ سسٹم

شمالی سندھ کے مختلف اضلاع کی برادریاں خود کو قبائل کہلواتی ہیں اور ہر برادری کا ایک سردار ہوتا ہے، جو اپنی برادری کے تکراروں کا خود فیصلہ کرتا ہے اور اس نظام کو جرگے کا نام دیا جاتا ہے۔

علاقے کے طاقتور سردار نہ صرف اپنی برادری بلکہ دیگر برادریوں کے جرگوں میں بھی فیصلے کرتے ہیں۔ جرگہ ایک روایتی اور غیر رسمی عدالت ہے، جس کا فیصلہ ماننا دونوں فریقین کے لیے لازم سمجھا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر خان پور جرگے کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایم این اے علی گوہر خان مہر کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے جرگے کے فیصلے کے بعد فتویٰ جاری کرتے ہوئے مرنے اور زخمی ہونے والوں کے عوض معاوضوں کی تفصیلات بتائی۔

جرگوں پر پابندی

اپریل 2004 میں سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے قبائلی سرداروں کے منعقد کردہ جرگوں اور ان کے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دے کر پابندی عائد کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ مستقبل میں ایسے جرگے بلانے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے اور قانون توڑنے والوں کو چھ ماہ سے سات سال تک قید کی سزا دی ہو سکتی ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق جرگوں کے فیصلوں کے نتیجے میں موت کی صورت میں جرگہ کرنے والوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔

سندھ ہائی کورٹ کا یہ تاریخی فیصلہ سکھر کے سینیئر وکیل ایڈوکیٹ شبیر شر کی درخواست پر سامنے آیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ شبیر شر نے کہا کہ نومبر 2003 میں ایک نوجوان جوڑے شازیہ منگی اور احسان چاچڑ کی ضلع گھوٹکی کے علاقے ڈھرکی کی عدالت میں رضامندی کی شادی کے بعد ہونے والے جرگے کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر عدالت نے یہ فیصلہ سنایا۔

ایڈوکیٹ شبیر شر کے مطابق: ’ان کی شادی کے بعد برادری کے سردار نے جرگہ کر کے نکاح کو کالعدم قرار دیتے ہوئے لڑکے کے والد پر پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ اور لڑکی کو طلاق کے بعد اس کے والد کے حوالے کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

’جوڑے نے جرگے کے فیصلے کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے جرگے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر سندھ پولیس کو ہدایت کی تھی کہ کسی جگہ جرگہ ہونے کی صورت میں اس میں شریک افراد کے خلاف ریاست کی جانب سے مقدمہ دائر کیا جائے۔‘

فریقین پولیس کیس واپس لینے کے پابند

ایڈوکیٹ شبیر شر کے مطابق جرگے کے فیصلوں کو تسلیم کرنا فریقین پر لازم ہوتا ہے اور فیصلے کے تحت دونوں اطراف خون بہا کا معاوضہ دینے کے علاوہ ایک دوسرے کے خلاف پولیس کے کیسز واپس لینے کے پابند ہوتے ہیں۔ 

بقول ایڈوکیٹ شبیر شر: ’قتل کا مقدمہ تو کوئی عدالت بھی تمام کارروائی چلانے اور گواہوں کے بیان سننے کے سوا خارج نہیں کر سکتی، مگر نجی جرگے کے بعد قتل کے مقدمات واپس لیے جائیں تو یہ ماروائے عدالت ہے اور اسی لیے عدالت نے ان فیصلوں پر پابندی عائد کی تھی۔‘

خان پور میں ہونے والے جلسے میں ایس ایس پی گھوٹکی اور دیگر پولیس افسران بھی شامل تھے۔

شبیر شر کے مطابق: ’اس جرگے میں کچھ ایسے ملزمان بھی شریک تھے جن پر حکومت کی جانب سے 10، 10 لاکھ روپے انعام ہے۔‘

اس سلسلے میں جب سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) گھوٹکی ڈاکٹر سمیر نور چنا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا: ’میں نے آفیشل یا ذاتی حیثیت میں کسی بھی نجی جرگے میں شرکت نہیں کی۔ یہ سراسر ایک الزام ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت پولیس سٹیٹ کیس دائر کرے گی تو کیا اس جرگے کا بھی مقدمہ درج کیا جائے گا؟ تاہم انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

اس سلسلے میں جرگے کی سربراہی کرنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی علی گوہر خان مہر کا مؤقف جاننے کے لیے ان کے موبائل نمبر پر کئی بار رابطہ کیا گیا اور انہیں واٹس ایب میسیجز بھی بھیجے گئے لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

سندھ حکومت کا موقف جاننے کے لیے جب وزیراعلیٰ ہاؤس سے رابطہ کیا گیا تو وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس جرگے کے متعلق ہمیں معلومات ملی ہیں۔ اس پر تحقیق کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‘

پابندی کے باجود جرگے کیوں ہو رہے ہیں؟

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جرگوں پر پابندی کے باوجود کئی سالوں سے صوبے میں جرگے جاری ہیں۔

شمالی سندھ کے جرگوں پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی ممتاز بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انصاف میں تاخیر اور مختلف برادریوں کے درمیاں خونی تنازعات کے بعد فریقین لڑائی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اسی لیے پابندی کے باجود جرگے ہو رہے ہیں۔

ممتاز بخاری کے مطابق: ’اس کے علاوہ ان جرگوں میں انتہائی طاقتور قبائلی سردار ملوث ہوتے ہیں، جو اپنے مفادات کے لیے جرگوں کا انعقاد کرواتے ہیں۔ ان جرگوں کو یہ سردار اپنے انتخابات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان