’حکومت کا ایکس سے ’نامناسب مواد‘ ہٹوانے کا طریقہ درست نہیں‘

سندھ ہائی کورٹ میں چلنے والے مقدمے میں وزارت داخلہ نے پیر کو جواب داخل کیا تھا کہ پاکستان میں ایکس کی بندش کے خلاف درخواست ناقابل سماعت ہے اور ملکی مفاد میں درخواست مسترد کی جائے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) گذشتہ پانچ ماہ سے پاکستان میں بند ہے (اے ایف پی)

سندھ ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی بندش کے خلاف کیس میں وزارت داخلہ نے جواب جمع کرایا ہے جس پر سائبر سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ نامناسب مواد کے ہٹانے کے لیے حکومتی درخواست کا طریقہ کار درست نہ ہونے کے باعث ایکس اس مواد کو نہیں ہٹاتا جس کے باعث پابندی عائد کی گئی ہے۔

ایکس (سابق ٹوئٹر) کی گذشتہ پانچ مہینوں سے پاکستان میں بندش کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں چلنے والے کیس میں وزارت داخلہ نے پیر کو جواب داخل کیا تھا کہ پاکستان میں ایکس کی بندش کے خلاف درخواست ناقابل سماعت ہے اور ملکی مفاد میں درخواست مسترد کی جائے۔

وزارتِ داخلہ نے عدالت میں تفصیلی جواب میں لکھا: ’پاکستان میں ایکس پر پابندی سے پہلے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے۔ پاکستان میں ایکس پر پابندی آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ یہ قانون اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے، اس پر قانون کے مطابق کچھ پابندیاں بھی ہوتی ہیں۔

’سوشل میڈیا خاص طور پر ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ ایکس ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس کو کئی بار پاکستانی قانون پر عمل درآمد کا کہا گیا مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ ایکس کا پاکستانی حکومت کے ساتھ مقامی قوانین پر عمل درآمد کا کوئی معاہدہ بھی نہیں ہے۔‘

جواب میں کہا گیا: ’پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں ایکس پر پابندی کے سوائے کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ پابندی ملکی سکیورٹی اور وقار کے لیے حساس اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں لگائی گئی ہے۔‘

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے 17 فروری 2024 سے ایکس کو پاکستان میں بلاک کردیا گیا تھا، جس کے بعد سے ایکس پاکستان میں تاحال بلاک ہے۔

جمع کروائے گئے جواب میں وزارت داخلہ نے کہا کہ کچھ عناصر ایکس کے ذریعے ملک میں عدم استحکام پھیلانا چاہتے ہیں، اسی طرح کے خدشات کے بعد پاکستان نے پہلے ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی تھی، بعد میں معاہدے دستخط کرنے اور ملکی قوانین پر عمل درآمد کی یقین دہانی پر سوشل میڈیا فارم کھول دیے گئے۔

وزارت داخلہ نے مزید کہا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک بھی وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر پابندی لگاتے رہتے ہیں، ملکی مفاد میں درخواست مسترد کی جائے۔

ایک آسٹریلوی کمپنی کی سائبر سکیورٹی کے لیے کام کرنے والے کاشف خان کے مطابق ایکس ایک عالمی کمپنی ہے جو ہر ملک کے قوانین پر عمل درآمد کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مگر اس کے لیے ایکس کی جانب سے ایک طریقہ کار بنایا گیا ہے اور پاکستان حکومت اس طریقہ کار پر عمل کرکے کسی نامناسب مواد کو  ہٹانے کا حکم دیتی ہے، جس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کاشف خان نے کہا: ’کسی نامناسب مواد کے ہٹانے یا کسی اکاؤنٹ کو مقامی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر بلاک کرنے کے لیے ایکس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے حکومت نامناسب مواد شیئر کرنے والے فرد کے خلاف مقامی قانون کے تحت عدالت میں کارروائی چلائے۔‘

کاشف خان نے کہا کہ ’جب عدالت میں اس فرد پر یہ ثابت ہوجائے کہ ایکس پر شیئر کیے جانا والا مواد مقامی قانون کے خلاف تھا تو عدالت کے حکم کی کاپی کے ساتھ ایکس کو لکھا جائے تو ایکس اس اکاؤنٹ کو بلاک کرنے اور مواد کو ہٹانے کی پابند ہے۔

’مگر پاکستان کی حکومت کسی ثبوت یا عدالتی کارروائی کی کاپی کے بغیر صرف حکم دیتا ہے کہ اس اکاؤنٹ کو بلاک کر دیا جائے یا اس مواد کو ہٹایا جائے۔ ایکس انتظامیہ اس لیے اس پر عمل نہیں کرتی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ کسی اکاؤنٹ کی آئی پی ایڈریس مانگی جاتی ہے، مگر اس کے لیے کوئی قانونی جواز مہیا نہیں کیا جاتا ہے تو ایسے میں ایکس صرف ایک درخواست پر کسی بھی صارف کی آئی پی ایڈریس نہیں دیتا۔ جس کے بعد نیشنل سکیورٹی کے نام پر ایکس کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔‘

کاشف خان کے مطابق ایکس انتظامیہ پاکستان حکومت مخالف نہیں کہ وہ ان کا کہا نہیں مانتی، وہ اپنے وضع کردہ طریقہ کار کی ہی درخواست پر کارروائی کرتا ہے۔

سائبر کرائم، ٹیکنالوجی پالیسی کی تجزیہ نگار اور صحافی سندھو عباسی نے کاشف خان کی تائید کرتے ہوئے کہا حکومت پاکستان کو شکایت ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیز ان کے قوانین پر عمل درآمد نہیں کرتیں، مگر یہ کبھی واضح نہیں کیا کہ شکایت کرتے وقت کیا طریقہ کار اپنایا گیا؟

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سندھو عباسی نے کہا: ’حکومت پاکستان کسی بھی مواد کو نیشنل سیکورٹی کے خلاف بول کر ہٹانا چاہتی ہے مگر یہ واضح نہیں کہ نیشنل سیکورٹی ہے کیا؟‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’نیشنل سیکورٹی بھی ہر حکومت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ہمارے یہاں ویسے اتنی تعلیم نہیں اور ڈیجیٹل تعلیم تو بہت ہی کم ہے، ایسی میں کوئی فرد کچھ بھی شیئر کر دیتا ہے، جسے بعد میں حکومت نیشنل سیکورٹی کے خلاف بات کا جواز دے کر ہٹانا چاہتی ہے۔

’سوشل میڈیا کمپنیز صرف یہ درخواست کرنے پر کہ فلاں مواد نیشنل سکیورٹی کے خلاف ہے، کو نہیں مانتی ان کو ٹھوس عدالتی ثبوت چاہیے کہ یہ مواد مقامی قانون کے خلاف ہے۔

’پاکستان میں سائبر سیکورٹی اور ٹیکنالوجی کے متعلق قوانین بھی مبہم ہیں۔ جن کو بنانے کے لیے ان شعبوں کی ماہرین کی رائے نہیں لی جاتی۔ ساری دنیا میں سوشل میڈیا کے استعمال پر سوالات اٹھ رہے ہیں مگر وہاں پابندی لگانے کے بجائے ان کا حل ڈھونڈا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان کو بھی اس پر بات کرنی ہوگی اور قوانین کو ماہرین کی مشاورت سے بنانا ہوگا۔

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ میں ایکس کی بندش پر دائر پٹیشن کے وکیل جبران ناصر نے کہا کہ وہ وزارت داخلہ کے جواب سے خوش نہیں ہیں اور اگلی شنوائی میں اپنا جواب دیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان