یہ گرمیوں کی ایک دوپہر ہے، میں ایوب نیشنل پارک راولپنڈی جسے کبھی ’ٹوپی رکھ‘ کہا جاتا تھا، میں جھیل کے کنارے بیٹھا ہوں۔ ایک منظر وہ ہے جو میرے ارد گرد ہے اور باقی مناظر آنکھوں سے اوجھل ہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں۔
یہاں روزانہ سینکڑوں ہزاروں لوگ سیر کے لیے آتے ہیں، امرا اور فوجی افسر گالف کھیلتے ہیں۔ اس پارک میں کئی شادی ہال بھی ہیں، کھیلوں کے میدان بھی ہیں۔ مگر کیا کوئی جانتا ہے کہ اسے ’ٹوپی رکھ‘ کیوں کہتے ہیں، قیام پاکستان سے پہلے یہاں کیا ہوتا تھا اور آج یہ پارک کس حال میں ہے؟
ٹوپی رکھ سے جڑی ایک داستان
گندھارا پر پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کشان حکومت کرتے تھے۔ یہ چینی نسل کے تھے جن کی سلطنت ہندوستان، پاکستان، افغانستان، چین، منگولیا اور وسط ایشیائی ممالک تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسی عہد میں راولپنڈی اور کشمیر پر ایک مقامی راجہ سارگن کی حکومت تھی جس کا پایۂ تخت اسی پارک کے ساتھ مورگاہ کے علاقے میں تھا۔
سارگن کی اکلوتی بیٹی سملی تھی جسے ایک اور راجہ کے بیٹے سے پیار ہو گیا تھا مگر راجہ سارگن کو یہ رشتہ منظور نہیں تھا، کیونکہ وہ اپنے برابر کے راجہ کے گھر سملی کو بیاہنا چاہتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دن سملی نے دریا میں کود کر خودکشی کر لی، لیکن مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں سے محو نہیں ہو سکی اور اسے دیوی کا خطاب دے دیا گیا۔ اسلام آباد میں جہاں سملی ڈیم ہے اسی جگہ پر سملی کے نام سے ایک گاؤں آباد ہوا کرتا تھا ہے۔ راجہ سارگن نے اپنی بیٹی کی یاد میں اسی پارک کی جگہ پر ایک سٹوپا بنوایا لیکن اب یہ موجود نہیں ہے۔
پوٹھوہاری زبان میں ’ٹوپ‘ سٹوپے کو کہتے ہیں اور ’رکھ‘ وہ جگہ ہوتی ہے جسے سرکار نے محفوظ جنگل قرار دیا ہو، اور جہاں درختوں کی کٹائی ممنوع ہو۔ اس لیے اسے ’ٹوپی رکھ‘ کہتے ہیں۔ مگر یہاں آنے والے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ایوب نیشنل پارک کبھی ٹوپی رکھ ہوا کرتا تھا۔ ٹوپی سے یہاں کیا مراد ہے اور اس کے پیچھے ایک مزے دار لوک داستان ہے۔
انگریزوں کا پارک جہاں مقامی لوگ نہیں آ سکتے تھے
انگریزوں نے1849 میں راولپنڈی میں خالصہ فوج کو شکست دی تو راولپنڈی کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی چھاؤنی کی بنیاد رکھی، جس کے بعد چھاؤنی کے باہر انگریز فیملیوں کی تفریح کے لیے ٹوپی رکھ میں ایک وسیع و عریض پارک بنایا گیا۔
انڈیا کے مشہور ناول اور ڈراما نگار کرتار سنگھ دُگل 1917 میں دھمیال راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے 2012 میں وفات پائی۔ انہیں انڈیا کا اعلیٰ ترین ادبی ایوارڈ پدم بھوشن دیا گیا اور وہ آل انڈیا ریڈیو کے سربراہ بھی رہے۔
2007 میں ان کی خود نوشت Whom to Tell My Tale کو نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا نے چھاپا تھا۔ اس کتاب میں راولپنڈی میں گزرے ان کے بچپن کے بہت سے واقعات دیے گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ ٹوپی رکھ پارک کا بھی ہے۔
کرتار سنگھ دُگل لکھتے ہیں کہ ’ٹوپی رکھ انگریزوں کی سیر گاہ تھی جہاں ہر طرح کے دل بہلاوے کا اہتمام تھا۔ گھنے جنگل میں طرح طرح کے جانور اور پرندے تھے جن کا کوئی شکار نہیں کرتا تھا۔ تیتروں اور بٹیروں کے جھنڈ اڑتے پھرتے تھے۔ ہرن اور خرگوش بھی تھے۔ جھیل میں قسم قسم کی مچھلیاں تھیں۔ نہ جانوروں کو کوئی چھو سکتا تھا نہ مچھلیوں کو، جگہ جگہ ٹوپی رکھ کے داروغے پھرتے رہتے تھے۔
’یہاں ہندوستان کا سب سے خوبصورت گالف کورس بھی تھا جہاں دن بھر گورے اور میمیں راستے ناپتے رہتے تھے۔ گرمیوں ننگ دھڑنگ گوریاں پسینہ پسینہ ہوئی رہتیں۔ ایک کنارے پر ٹینس کورٹ بھی تھا جس کو دن بھر ہندوستانی مزدور سنوارتے رہتے۔ شام کو اپنی اپنی موٹروں میں انگریز آتے اور کھیلوں پر بازیاں لگاتے۔
’ٹوپی رکھ میں طرح طرح کے پھولوں کی کیاریاں تھیں جو رنگ برنگے پھولوں سے بھری رہتیں۔ گرمیوں میں بہت اونچے پیڑوں کی گھنی چھاؤں، جھیل کا کنارہ، جنگل کی ہریالی اور سردیوں میں نیم گرم دھوپ، گھاس کے کھلے میدانوں کی تپش، غرضیکہ رکھ میں جنت کا سا نظارہ ہوتا تھا۔
’میں حیران ہوتا کہ کبھی کسی دیسی کو گالف یا ٹینس کھیلتے کبھی نہیں دیکھا۔ میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ ٹوپی رکھ صرف انگریزوں کے لیے ہے کوئی کالا آدمی یہاں کا رکن نہیں بن سکتا۔
’داروغے نے پوچھا، ’تم کیسے اندر آ گئے ہو؟‘
میں نے سوچا کہ شاید مجھے بھی کسی نے انگریز ہی سمجھ لیا ہو گا۔ لیکن ایک دن میں اور میرا دوست اپنی موٹر کھڑی کر کے پارک میں دور نکل گئے جہاں انگریز جوڑے بدمست پڑے تھے۔ ایک شرابی انگریز کی نظر ہم پر پڑ گئی وہ ہمیں گالیاں بکتا ہماری طرف بڑھا۔ اس کی دیکھا دیکھی باقی انگریز بھی ہماری طرف دوڑے۔ ہم دوڑ کر اپنی گاڑی تک پہنچے اور ہماری جان اس یقین دہانی پر چھوٹی کی اگر آئندہ یہاں نظر آئے گئے تو پھر بالکل بخشا نہیں جائے گا۔‘
بلراج ساہنی، جو انڈیا کے نامور فلم سٹار گزرے ہیں، ان کا تعلق بھی راولپنڈی سے ہی تھا وہ 1962 میں راولپنڈی آئے۔ اپنے دورے کے حوالے سے انہوں نے ایک سفرنامہ بھی لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ٹوپی رکھ پارک دیکھنے کی خصوصی گزارش کی جہاں میں نے اپنے بچپن کے دوست خورشید کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی۔
یہ پارک آج کس حال میں ہے؟
راولپنڈی کی 1961 کی مردم شماری رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’ایوب نیشنل پارک جی ٹی روڈ پر واقع ہے جس کا شمار پاکستان کے خوبصورت ترین پارکوں میں کیا جاتا ہے۔ اس میں سات نہریں نکالی گئی ہیں جو یہاں کی جھیلوں کو پانی مہیا کرتی ہیں۔ پارک میں آٹھ میل لمبی سڑکیں اور 12 میل لمبے کچے راستے ہیں۔ 6670 فٹ لمبی بل کھاتی ہوئی نہر ہے جہاں کشتی رانی کی جاتی ہے۔ بارہ دری، فوارے اور آبشاریں ہیں۔ ایک ریسٹورنٹ، اوپن ایئر تھیئٹر، بچوں کا پارک بھی ہے۔ ا س پارک کو توسیع دے کر 2300 ایکڑ تک وسعت دی جائے گی۔ ایک سینما بھی زیر تعمیر ہے جبکہ یہاں چڑیا گھر اور بچوں کی سفاری ٹرین بھی بنانے کا منصوبہ ہے۔‘
اس پارک کا نام 1959 میں ٹوپی رکھ پارک سے بدل کر ’ایوب نیشنل پارک‘ رکھ دیا گیا جب ملک پر جنرل ایوب خان کی حکومت تھی۔ شروع میں اس کا انتظام پنجاب حکومت کے پاس تھا جسے صدر مشرف کے دور میں فوج کے حوالے کر دیا گیا۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان رسالے’ہلال‘ کے نومبر 2021 کے شمارے میں اسوہ احمد لکھتی ہیں کہ ’300 سے زائد ایکڑ پر مشتمل اس پارک کا انتظام آرمی ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے پاس ہے جسے 1999 میں قائم کیا گیا تھا۔ پارک میں تعلیمی، ثقافتی اور تفریحی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں جن میں ایک چڑیا گھر، آرمی میوزیم، جنگل ورلڈ، مہمان خانے، ریزورٹ، پرانی (ونٹج) گاڑیوں کا پارک، خوبصورت باغ، مختلف کھیلوں کی سہولتیں، کشتی رانی اور جم وغیرہ شامل ہیں۔
آرمی میوزیم میں 1948، 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں استعمال ہونے والے ٹینک، آرمرڈ گاڑیں، آرٹلری اور جنگی جہاز رکھے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی سے 19ویں صدی تک ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ بھی دکھائی گئی ہے۔ پاکستان گیلری میں پاکستان کی 75سالہ تاریخ واضح کی گئی ہے۔ ایک لاکھ مربع فٹ پر مشتمل پھولوں کا باغ دبئی کے ایک باغ کی طرز پر بنایا گیا ہے جس کے تین حصے ہیں ہر حصہ اپنی الگ شکل و صورت رکھتا ہے۔
’بارہ دری جس کا افتتاح صدر ایوب نے 1959 میں کیا تھا اپنی تاریخی صورت میں موجود ہے۔ چڑیا گھر میں شیر، زیبرا ور 40 قسم کی پرندے موجود ہیں۔ پارک کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے وسیع پیمانے پر شجر کاری کی گئی ہے۔‘
کبھی اس پارک کو اس کے گھنے جنگل کی وجہ سے راولپنڈی کے پھیپھڑے کہا جاتا تھا۔ مگر آج یہاں جنگل برائے نام ہے اور ہر طرف منگل ہی منگل ہے۔ فطرت کی اس صناعی کو ایک کاروباری شکل دے دی گئی ہے۔ کاروبار میں صرف کیش ٹرن اوور دیکھا جاتا ہے ہو سکتا کسی روز زیادہ کیش ٹرن اوور کے لیے یہاں رہے سہے جنگل کو بھی بلند و بالا عمارتوں میں بدل دیا جائے۔