راولپنڈی کے یہودیوں کی پراسراریت جو آج بھی برقرار ہے

راولپنڈی کی کئی عمارتوں پر یہودیت سے وابستہ نشان ’ستارۂ داؤدی‘ کندہ ہے، لیکن کیا یہاں واقعی یہودیوں کا وجود تھا؟

 لال کڑتی کی اس حویلی پر بھی ’ستارۂ داؤدی‘ (سٹار آف ڈیوڈ) موجود ہے(تصویر: سجاد اظہر)

راولپنڈی صدر کے بابو محلے میں ایک تین منزلہ عمارت ہے جسے اب الرحمٰن منزل کہا جاتا ہے اور اس کے بارے میں سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز موجود ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے یہ یہودیوں کی عبادت گاہ تھی۔

اس استدلال کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس کے دونوں جانب یہودیوں کا مقدس نشان ’ستارۂ داؤدی‘ (سٹار آف ڈیوڈ) بنا ہوا ہے۔

لیکن اس عمارت کے مکینوں میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تاریخ کیا ہے اور کیا واقعی یہ کبھی یہودیوں کی عبادت گاہ رہی ہے۔

راولپنڈی صدر کی گلی میں یہ عمارت نشتر سٹریٹ میں کافی اچھی حالت میں موجود ہے، جہاں اب دکانیں اور گودام ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے اس گلی کو لیٹن سٹریٹ کہا جاتا تھا۔

راولپنڈی کے 100 سال پہلے کے نقشے میں واقع عبادت گاہوں کی نشاندہی کی گئی ہے مگر لیٹن سٹریٹ میں ایسی کوئی نشاندہی ظاہر نہیں کی گئی، جس سے ثابت ہوتا ہو کہ یہاں یہودیوں کی مذہبی عبادت گاہ موجود تھی۔

راولپنڈی کے یہودیوں کی کہانی جو مشہد سے جڑی ہوئی ہے

اسرائیل میں آباد ہونے والے 85 ہزار یہودی ایسے ہیں جو ہندوستان سے ہجرت کر کے گئے تھے۔

ہندوستان میں یہودیوں کی آبادی کے اوّلین شواہد تو 562 قبل مسیح میں کوچین کی بندر گاہ میں ملتے ہیں، جہاں وہ تجارت کی غرض سے آئے تھے، لیکن راولپنڈی میں یہودیوں کی آمد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہوئی تھی۔

اس کا پس منظر جاننے کے لیے ہمیں ایران کے شہر مشہد جانا پڑے گا۔

ڈاکٹر یویٹ الٹ ملر جو کہ لندن سکول آف اکنامکس سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی ہیں اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی لندن میں پڑھاتی ہیں، انہوں نے اپنے ایک مضمون میں راولپنڈی کے یہودیوں کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ کیسے وہ مشہد سے بھاگ کر رنجیت سنگھ کے دور میں راولپنڈی میں پناہ گزین ہوئے تھے۔

ایران کا بادشاہ نادر شاہ جس نے مارچ 1739 میں دہلی کو تخت و تاراج کیا تھا اور یہاں سے جو خزانہ وہ لوٹ کر گیا تھا، اس کی موجودہ مالیت 30 ارب ڈالر سے زیادہ کی ہے، جس میں کوہ نور ہیرا بھی تھا۔

نادر شاہ کا پایۂ تخت مشہد میں تھا جہاں کی اکثریت شیعہ تھی، لیکن نادر شاہ خود سنی العقیدہ تھا، اس لیے اسے شیعوں کی جانب سے اندیشہ رہتا تھا کہ وہ موقع ملتے ہی اس کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں اور تخت و تاج سے محروم کر سکتے ہیں۔

اپنی اور اپنے مال غنیمت کی حفاظت کے لیے اس کی نظر ایران میں آباد یہودیوں پر پڑی۔

مشہد کے مذہبی تقدس کے وجہ سے وہاں یہودیوں کی آباد کاری نہیں ہو سکتی تھی مگر نادر شاہ اس پابندی کو خاطر میں نہیں لایا۔ اس نے یہودیوں کے لیے مشہد میں الگ محلے تعمیر کروائے جنہیں ’عید گاہ‘ کہا جاتا تھا۔

یہودیوں کو مسلم ریاستوں میں ذمی کی حیثیت حاصل رہی ہے، وہ جزیہ دے کر امن سے رہ سکتے تھے مگر انہیں مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل نہیں تھے۔

یہودی مشہد میں 90 سال تک خوب پھلے پھولے۔ یہاں ان کا ایک مرکزی عبادت خانہ بھی تھا، سکول اور ثقافتی ادارے بھی تھے۔ بہت سے یہودی تجارت سے وابستہ تھے ان کے کاروبار ایران بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔

مشہد کی شیعہ کمیونٹی یہودیوں کی شہر میں موجودگی کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ اس دوران ایک ایسا واقعہ ہو گیا جس نے انہیں مشہد چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

یہ 27 مارچ 1839 کا دن تھا جب مشہد میں یہودیوں کا کشت و خون ہوا۔ عاشورہ کے دن تھے جب جزام کی بیماری میں مبتلا ایک یہودی عورت حکیم کے پاس علاج کے لیے گئی۔

حکیم نے بڑا عجیب و غریب علاج بتایا کہ وہ کتے کا خون اپنے چہرے اور جسم پر لگائے۔ عورت نے جب ایسا کیا تو قریب کے ہی ایک مسلمان بچے نے یہ مشہور کر دیا کہ یہودی عورت نے ایک کتا رکھا ہوا ہے جس کا نام نعوذ باللہ ایک متبرک مذہبی ہستی کے نام پر رکھا ہوا ہے۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ خوفناک تھا اور اسے آج بھی تل ابیب کے یہودی میوزیم میں خصوصی پینٹنگز کے ساتھ رقم کیا گیا ہے۔

بچے کی بات پر اعتبار کرتے ہوئے مساجد سے علمائے کرام نے یہ وعظ کرنا شروع کر دیا کہ ایک ذمی عورت نے کیسے گستاخی کی ہے۔

مساجد سے نکل کر مسلمان یہودیوں کی آبادیوں پر چڑھ دوڑے اور پھر جو یہودی ملا وہ بچ نہیں سکا۔

یہودی عورتوں کی عصمت دری کی گئی، بچوں کو اغوا کر لیا گیا اور اس بلوے میں 30 سے زیادہ یہودی مارے گئے۔ یہودیوں کی عبادت گاہ کو آگ لگا دی گئی اور ان کے گھروں کو لوٹ لیا گیا۔

اس کے بعد یہودیوں کے سامنے جو آپشن رکھا گیا وہ یہ تھا کہ وہ مسلمان ہو جائیں اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو مسلمانوں کی تحویل میں جو یہودی بچے ہیں، انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

یوں جان کے خوف سے مشہد کے 300 یہودی مسلمان ہو گئے۔ اس عمل کو مشہد میں آج بھی ’اللہ داد‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد کئی نسلوں تک یہودی اپنی عبادات خفیہ طریقوں سے ادا کرتے رہے۔

اس دوران سینکڑوں یہودی بھاگ کر پنجاب آ گئے کیونکہ ان کے تجارتی روابط پنجاب کے ساتھ پہلے سے موجود تھے۔

راولپنڈی چین اورایران کے درمیان تجارت کے لیے ایک اہم سٹیشن تھا۔ چین سے ریشم اور برتن آتے تھے اور ایران سے قالین اور زعفران چین جاتے تھے۔

یہ ساری تجارت راولپنڈی کے ذریعے ہوتی تھی۔ ایران کے یہودی بھی راولپنڈی آتے جاتے رہتے تھے، اس لیے جب ان پر مشکل پڑی تو انہوں نے راولپنڈی آنا ہی مناسب سمجھا۔

راولپنڈی کی تاریخ میں یہودیوں کا تذکرہ کیوں غائب ہے؟

جو یہودی بھاگ کر پنجاب آئے انہیں رنجیت سنگھ کے دور میں راولپنڈی میں پناہ دی گئی، جو راولپنڈی کے بابو محلے میں رہائش اختیار کر کے تجارت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔

سکھ حکومت میں انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی، انہوں نے یہاں پر ایک خوبصورت عبادت گاہ اور کمیونٹی سینٹر بنایا۔ رنجیت سنگھ اگرچہ اسی سال مر گیا تھا جس سال یہودی یہاں آئے تھے۔

1849 میں پنجاب میں سکھ دور کے خاتمے کے بعد بھی وہ راولپنڈی میں امن و سکون سے رہتے رہے، لیکن تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کی وجہ سے راولپنڈی کے بہت سے یہودی انڈیا کے شہر بمبئی چلے گئے۔

راولپنڈی کے جو اِکا دُکا یہودی رہ بھی گئے تھے وہ بھی 1960 تک انڈیا کے راستے اسرائیل منتقل ہو گئے جہاں آج بھی راولپنڈی میں پیدا ہونے والی نسل کے بزرگ اِکا دُکا موجود ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہودی راولپنڈی میں موجود تھے اور ان کا ایک عبادت خانہ اور کمیونٹی سینٹر بھی موجود تھا تو پھر راولپنڈی کی تاریخ کا وہ حصہ جو نوآبادیاتی دور سے متعلق ہے اس میں یہودیوں کے شواہد کیوں موجود نہیں ہیں؟

اگر وہ تجارت سے منسلک تھے تو شہر میں کسی ممتاز یہودی تاجر کا ذکر بھی نہیں ملتا۔ 

’راول دیس،‘ جسے بزرگ ادیب عزیز ملک نے لکھا تھا، یہ کتاب تقسیم سے پہلے کے پنڈی کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔ اس میں نمایاں ہندوؤں، سکھوں اور پارسیوں کا تذکرہ تو ہے مگر کسی یہودی کا ذکر بالکل بھی نہیں ہے۔

تحریک پاکستان کے بزرگ کارکن محمد عارف راجہ نے اپنی کتاب ’تاریخ راولپنڈی و تاریخِ پاکستان‘ میں لکھا کہ راولپنڈی میں یہودیوں کی تنظیم فری میسن کا دفتر صدر میں کونسل آف آرٹس کی جگہ تھا، جو بہت پراسرار تھا، اس کے کارکن رات کی تاریکی میں آتے اور چلے جاتے۔

اس ایک حوالے کے علاوہ کوئی دوسرا حوالہ ابھی تک نہیں مل سکا۔

اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ یہودی نسبتاً الگ تھلگ رہنے والی اور خود کو چھپانے والی کمیونٹی تھی اور دوسرا یہ کہ اسی وجہ سے انہیں یا تو مسیحی سمجھا گیا یا پھر اینگلو انڈین سمجھ لیا گیا ہو گا۔

ستارۂ داؤدی راولپنڈی کی کئی عمارتوں پر موجود ہے

راولپنڈی میں یہودیوں کی تعداد کتنی تھی، یہ اعداد و شمار تقسیم سے پہلے ہونے والی کسی مردم شماری میں الگ ظاہر نہیں کیے گئے۔

راولپنڈی کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے راولپنڈی صدر کے رہائشی کرنل زاہد ممتاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صدر میں کوئلہ سینٹر کے سامنے بھی ایک عمارت پر ستارۂ داؤدی بنا ہوا تھا جو شاید ان کی عبادت گاہ یا کمیونٹی سینٹر تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

راولپنڈی کے نو آبادیاتی دور پر مشتمل ایک کتاب ’راولپنڈی فرام دی راج ایئرز‘ کے مصنف علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ راولپنڈی میں یہودی رہتے تو تھے لیکن فری میسن سینٹر کے علاوہ ان کے کوئی اور نقوش نہیں ملتے۔ ستارۂ داؤدی کا عمارتوں پر موجود ہونا شاید اس دور کا تعمیراتی فیشن تھا کیونکہ یہ نشان ان کے اپنے آبائی گھر میں بھی موجود تھا۔

کیا صدر میں موجودہ الرحمٰن بلڈنگ پر ستارۂ داؤدی کا موجود ہونا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ کبھی یہودیوں کی مذہبی عبادت گاہ تھی؟ یہ نشان تو شہر کی کئی قدیم عمارتوں کے اوپر بنا ہوا ہے۔

ایسی ہی ایک پرانی حویلی لال کڑتی میں بھی ہے۔ الماس بوبی جو کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرتی ہیں، کبھی یہ حویلی ان کی ملکیت تھی لیکن پھر انہوں نے اسے بیچ دیا۔

جب ان سے اس حویلی کی تاریخ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہ کسی یہودی خاندان کی ملکیت رہی ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ حویلی ایک ہندو تاجر سورج بھان نے پاکستان بننے کے صرف سات سال پہلے بنوائی تھی۔

’تقسیم کے فسادات میں اسے لال کڑتی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کی ایک ہی بیٹی تھی جو انڈیا چلی گئی تھی، اس لیے عمارت پر ستارۂ داؤدی کی موجودگی محض اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے ہو سکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’شاید اس دور کے مستریوں کو بھی یہ معلوم نہ ہو کہ جس نشان کو وہ کنندہ کرتے ہیں وہ یہودیوں کا مقدس مذہبی نشان ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح دھرم چکرا کو لوگوں نے سجا کر اپنے ڈرائنگ روم میں رکھا ہوتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ ہندوؤں کا مقدس نشان ہے۔‘

راولپنڈی کی قدیم عمارتوں کی تصویر کشی کرنے والے خرم بٹ کا بھی کہنا ہے کہ ستارۂ داؤدی کا نشان شہر کی کئی قدیم حویلیوں پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جن کے بارے میں یہ واضح ہے کہ وہ ہندوؤں کی ملکیت تھیں جن میں ایم ایم عالم روڈ اور جامع مسجد روڈ پر واقع حویلیاں بھی شامل ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ