سو سال پہلے بری امام کا عرس کیسے منایا جاتا تھا؟

شروع میں ان کے سالانہ عرس کی تقریبات پانچ روزہ ہوتی تھیں جو پنجابی مہینہ ویساکھ کے پہلے عشرے کے اتوار سے شروع ہو کر جمعرات تک جاری رہتی تھیں۔

موجود ہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی خصوصی توجہ سے بری امام کے مزار پر ایک کمپلیکس تعمیر کیا گیا (Ibnazhar - CC BY-SA 4.0) 

ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس سے چند سو گز کے فاصلے پر مدفون صوفی بزرگ شاہ عبد الطیف المعروف بری امام کے تین روزہ سالانہ عرس کا آغاز 15 اگست سے ہو چکا ہے۔

پوٹھوہار میں ایک روایت ان کی نسبت سے زبان زد عام ہے کہ ’یہاں ایک شہر بنے گا جو عالم میں انتخاب ٹھہرے گا لیکن پھر ایک روز خطرناک زلزلے سے نیست و نابود ہو جائے گا۔‘

معلوم نہیں کہ اس روایت میں کتنی صداقت ہے کیونکہ اس زمانے میں راقم کم کم تھے اور راوی زیادہ تھے۔

شروع میں ان کے سالانہ عرس کی تقریبات پانچ روزہ ہوتی تھیں جو پنجابی مہینہ ویساکھ کے پہلے عشرے کی اتوار سے شروع ہو کر جمعرات تک جاری رہتی تھیں۔

یوں یہ عرس ہر سال اپریل کے آخری عشرے میں آتا تھا۔ چونکہ پنجاب میں گندم کی کٹائی ختم ہوتے ہی میلے ٹھیلے شروع ہو جاتے تھے تو اسی مناسبت سے بری امام کا عرس بھی ویساکھ میں ہی منایا جاتا تھا۔

2005 میں بری امام کے مزار پر خودکش حملہ ہوا جس کی وجہ سے  اگلے 17 سال یہ عرس نہیں منایا گیا۔

تاہم موجودہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گذشتہ سال اس عرس کو ویساکھ کی بجائے پاکستان کے یوم آزادی سے منسوب کر دیا اور اب یہ ہر سال 15 سے 17 اگست  تک منایا جائے گا۔

بری امام کون تھے؟

بری امام 1617 میں چکوال کے قصبے چولی کرسال میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 91 سال کی عمر میں اسلام آباد کے قصبے  چور پور میں وصال فرمایا جس کے بعد یہ قصبہ چور پور سے نور پور شاہاں کے نام سے پکارا جانے لگا، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس صوفی بزرگ کے مزار پر وقت کے بادشاہ حاضری دیا کرتے تھے۔

محمد حسیب قادری کی کتاب ’سیرتِ بری امام سرکار‘ میں ان کے حالات زندگی کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ بری امام کا سلسلہ نسب بغداد میں مدفون صوفی بزرگ شیخ عبد القادر جیلانی سے ملتا ہے اور آپ کے آباؤاجداد عراق سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے تھے اور چکوال میں سکونت اختیار کر لی تھی۔

آپ کا نام شاہ عبد الطیف تھا۔ دس سال کی عمر میں والد محترم حضرت سید محمود  کے ہمراہ باغ کلاں میں نقل مکانی فرمائی جسے اب آبپارہ کہتے ہیں۔

انہوں نے دینی تعلیم غورغشتی ضلع اٹک میں حاصل کی، بعد ازاں کشمیر، بدخشاں، مشہد، بخارا، نجف، کربلا، بغداد، مصر اور شام کے تعلیمی دورے  کیے اور پھر حج کی سعادت بھی حاصل کی۔

سفر سے واپسی پر حجرہ شاہ مقیم میں ایک بزرگ حضرت سید جمال اللہ المعروف بالا پیر سے روحانی فیض حاصل کیا۔

باغ ِ کلاں واپس آئے تو والدین نے شادی کر دی۔ آٹھ سال تک اولاد ہی نہیں ہوئی۔

پھر ایک بیٹی پیدا ہوئی جو بچپن میں ہی وصال فرما گئی اور جس کے بعد آپ کی زوجہ محترمہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔

بیٹی اور بیوی کی وفات کے بعد آپ مکمل تارک ِدنیا ہوگئے۔ مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں واقع نیلاں ندی میں طویل عرصہ کھڑے ہو کر چلہ کشی کی جس عرصے کو ان کے راوی بارہ سال بتاتے ہیں۔

پھر آپ نے مارگلہ پہاڑوں کے دامن میں ایک جگہ لوئی دندی کو اپنے لیے چنا اور وہیں عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے لگے۔ آپ کی تبلیغ کی وجہ سے اردگرد کے علاقوں میں اسلام تیزی سے پھیلا۔

آپ تبلیغ دین کے لیے قریبی علاقوں کے تواتر کے ساتھ دورے کرتے تھے۔ جہاں جہاں آپ کا قیام رہا آج بھی وہ جگہیں بری امام کی بیٹھکوں کے نام سے منسوب ہیں جو پورے پوٹھوہار کے ساتھ کشمیر اور ہزارہ میں پھیلی ہوئی ہیں۔

بری امام کا لقب انہیں ان کے پیر حضرت بالا پیر قادری نے عطا کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اس ’بر‘ یعنی خشکی کے ٹکڑے کے امام ہو جو بعد میں بری امام ہو گیا۔

روایت ہے کہ آپ کی خدمت میں مغل بادشاہ اورنگزیب بھی حاضر ہوئے تھے اور آپ نے ہی اس کو بادشاہ بننے کی بشارت دی تھی۔

آپ کا وصال 1708 میں 91 سال کی عمر میں ہوا اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو نور پور شاہاں میں دفن کیا گیا۔ یوں آپ کے وصال کو 316 سال ہو چکے ہیں۔

اسحاق ڈار کی خصوصی توجہ سے آپ کے مزار پر ایک شاندار کمپلیکس تعمیر کیا گیا ہے۔

بری امام پر ڈالیوں کی آمد اور رقص و سرود کے مناظر:

انڈیا کے نامور شاعر، افسانہ و ناول نگار کرتار سنگھ دگل جو کہ 1917 میں دھمیال راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے، انہیں انڈیا کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پدما بھاشن بھی ملا تھا اور وہ انڈیا کے ایوان بالا کے ممبر بھی  رہے۔

ان کی  خود نوشت Whom To Tell My Tale  جس کا اردو ترجمہ  ’کس پہ کھولوں گنٹھڑی‘ کے نام سے ریختہ پر موجود ہے۔

اس میں وہ بری امام کے عرس کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں۔ ’پنڈی سے کوئی دس کوس دور نورپور میں ہر برس بری امام کا میلہ لگتا تھا جو کئی روز تک رہتا تھا۔ اس میلے میں ملک بھر سے گانے والیاں حاضر ہو کر اپنی چوکی بھرتیں۔

’گانے والیاں آتیں تو تماش بین بھی آتے۔ نور پور کی چہل پہل دیکھنے والی ہوتی۔ ہر آنگن مہمانوں سے بھرا ہوا ہوتا۔ شہر کے اندر اور باہر کھلی جگہوں پر رنگ برنگے شامیانوں کا جھرمٹ سا لگا رہتا۔

’دن رات گانے والیوں کی تانیں، ناچنے والیوں کے گھنگھروں کی جھنکار آس پاس گونجتی رہتی۔‘

کرتار سنگھ دگل لکھتے ہیں کہ ’جب میں اپنے مسلمان دوست کے ساتھ پہلی بار بری امام کا میلہ دیکھنے گیا تو شام کے دھندلکے چھا رہے تھے ہر طرف تنبو ہی تنبو لگے تھے۔ اسی دن راولپنڈی سے جلوس اور ڈالیاں آرہی تھیں۔

’بے حد بھیڑ تھی۔ یا بری امام کے نعرے لگاتے، قوالیاں گاتے ہوئے مرد پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر ناچتے، جلوس جب درگاہ کے نزدیک پہنچا تو تنبوؤں کے دونوں طرف لگی ہوئی بتیاں جگ مگ جگ مگ کرنے لگیں۔

’بگڑے ہوئے پٹھان، مستی میں جھومتے پوٹھوہاری جاٹ، نشے میں دھت زمیندار، ہر آدمی کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ ہر دوسرے آدمی کے گلے میں پستول تھا یا کندھے پر دونالی بندوق۔

’ہوٹلوں پر لوگ ٹوٹ ٹوٹ پڑتے۔ کہیں پر کبابوں کی خوشبو، کہیں بریانی کی سگندھ، کہیں پر فالودہ قلفی، کہیں پر جلیبیاں اور اندرسے۔ قدم قدم پر پان کی دکانیں قدم قدم پر سگریٹ اور بیڑی کے خوانچے۔

’ابھی ہم میلے کا پورا چکر بھی نہیں لگا پائے تھے کہ گھنگھرؤں کی جھنکار اور گیتوں کے بول کی تانیں سنائی دینے لگ پڑیں۔ ہر اڈے پر شام کی حکمرانی کسی خاص تماش بین کی ہوتی تھی۔ لیکن گانا سننے کے لیے کوئی بھی آسکتا تھا۔

’ویل‘ دے سکتا تھا لیکن جس کسی نے گانا سننے والی کی شام کو اپنے نام کیا ہوتا، محفل میں زیادہ تر اسی کی چلتی تھی۔ اس کی مرضی کے گیت گائے جاتے۔ اس کی مرضی کا ناچ ہوتا۔ تماش بین بے شک ’ویلیں‘ دیتے لیکن شام کے مالک کی برابری کوئی نہیں کر سکتا تھا۔‘

رقص و سرود

کرتار سنگھ دُگل کے بقول ’کابل قندھار سے اونچے طروں والے پٹھان اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر بندوقوں سے سجے دھجے آتے۔ ایک ایک ٹولی میں کئی کئی گھوڑے۔ کئی کئی رائفلیں ہوتیں جیسے فوج چڑھ کر آئی ہو۔ ربر کے ٹائروں والے تانگے اور جہاز کی طرح بڑی بڑی موٹروں پر سوار ہو کر لاہور اور پشاور کے سر پھرے رئیس آتے۔ ان کی جیبیں نوٹوں سے اوپر تک بھری ہوتیں۔ پھر لکھنؤ بنارس کے نواب اور جاگیردار آتے۔ اپنے حواریوں میں گھرے ان کو پتہ ہی نہ چلتا کہ کب دن چڑھا کب رات ہو گئی۔ گانے والیاں ساری رات گاتیں۔ سارا سارا دن گاتیں۔ نہ وہ تھکتیں نہ سننے والے ہارتے۔ ہر اڈے پر تماش بینوں کی بھیڑ لگی رہتی۔

’ہر ادا پر لوگ قربان ہو ہو جاتے۔ ایک گانا ختم ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔ ایک ناچ کر ٹلتی تو دوسری ناچنے والی حاضر ہو جاتی۔ سازندے بدلتے۔ کئی چوکیاں آتیں۔ لیکن تماش بین ہلنے کا نام نہ لیتے۔ چاندی کے روپے، سونے کی مہریں اور نوٹ یوں آڑاتے جیسے پانی بہتا ہے۔

’تب بھی بری امام کے میلے میں شامل ہونا بڑے ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ رنڈیوں کو یہ یقین تھا کہ ان کے گانے ناچنے میں اور ہی قسم کی خوبی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی محفلوں کی شہرت بڑھتی ہے۔ جو بھی بری امام کی درگاہ پر حاضر ہوتی مالا مال ہو کر لوٹتی۔‘

ناچنے گانے والوں کی بیٹیاں، کنواری رقاصائیں بری امام کے میلے کا انتظار کرتیں۔ مختلف رسموں کے لیے راجے نواب بڑے بڑے جاگیردار، خان اور شیخ بوریاں بھر بھر کر روپے لاتے اور پھر سارا سال اس میدان مارنے کی کہانی سناتے رہتے۔ وہ خاک سیاہ ہو جاتے لیکن ایسے موقعوں پر اپنی مونچھ  نیچی نہ ہونے دیتے۔

قصائی گلی کی رقاصہ الماس کے ڈیرے پر فائرنگ:

الماس پنڈی سے قصائیوں والی گلی سے آئی تھی، اونچی، لمبی، بھرا ہوا جسم۔ وہ ہندو عورت تھی اور پٹیالے کی رہنے والی تھی، اس کی ماں مہاراجہ کے لیے گاتی تھی۔

الماس کو اس نے ریاست سے باہر بھیج دیا تھا تاکہ کہیں اس پر بھی مہاراجہ کا قبضہ نہ ہو جائے۔ اس نے اپنا نام بھی اسی لیے تبدیل کر دیا تھا۔ پھر یہ کہ گانے والی رنڈیوں کو مسلمان نام زیادہ اچھے لگتے تھے اس طرح کے نام سے گاہکی زیادہ بڑھتی تھی۔ تماش بین سوچتے ہیں کہ ہندو لڑکیوں کو گانا نہیں آتا۔

ہندو لڑکیاں زیادہ سے زیادہ بھجن گا سکتی ہیں۔ کان پر ہاتھ رکھ کر جب الماس گیت کے بول اٹھاتی تو جیسے سننے والے کے سینے سے اس کا دل نکال کر لے جاتی۔

گاتے گاتے ناچنے لگ جاتی تماش بینوں سے آنکھ لڑاتی۔ لیکن ہر چکر کے بعد شراب سے مدہوش خان کے سامنے حاضری بھرتی۔ وہ جھک جھک کر اسے سلام کرتی اس کے آگے پیچھے بچھ جاتی۔ جب الماس اس کے سامنےآتی تو وہ بھی ہر بار سو کا نوٹ نکال کر اس کے سر پر نچھاور کرتا اور اس کے بلاؤز کے بیچ ٹانگ دیتا۔ الماس کے ساتھ ایسی حرکت صرف خان ہی کرسکتا تھا کوئی اور نہیں۔

آدھی رات کا وقت ہو گا جب الماس کے ڈیرے پر چھولداریوں کے نیچے تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ سارے لوگ جیسے اس کی محفل میں ٹوٹ کر آ گئے تھے۔ الماس بھی ایک امنگ سے نشے میں ڈوبی گائی جا رہی تھی۔ بار بار ناچنے لگتی۔ ناچتے ناچتے وہ تھک رہی تھی نہ ہار رہی تھی اور پھر تین نوجوانوں کی ٹولی نشے میں بدمست دھکے زوری سے جیسے محفل میں کود پڑی۔

وہ لڑکے کوئی راجپوت جاگیردار تھے۔ آتے ہی انہوں نے الماس پر سو سو کے نوٹوں کی بارش شروع کر دی۔ لڑکے نوجوان تھے خوبصورت تھے، شعلوں کی طرح ان کے ماتھے دمک رہے تھے۔

الماس پہلے تو ذرا جھجھکی اس کی شام قندھار سے آئے ہوئے خان کے ساتھ بندھی تھی لیکن پھر نئے نوجوانوں کا قہر بھرا حسن اور ان کا بے بہا پیسہ دیکھ کر اس کا من جیسے بھٹکنے لگ پڑا۔ لڑکوں کو اس محفل میں آئے ابھی آدھ گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا اور انہوں نے ہزاروں روپے اس پر لٹا دیے تھے اور پھر الماس نے پلٹ پلٹ کر ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بار بار ان کی طرف دیکھ کر مسکراتی۔ ہر بار جب وہ ویل دیتے تو وہ آگے جھک جھک کر انہیں آداب بجا لاتی۔ جیسے سامنے گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے خان کو وہ بھول رہی ہو۔ ایک چکر دوسرا چکر جب تیسری بار الماس  اپنے خان کو بندگی کرنے اس کی طرف نہ گئی تو وہ غصے سے بھر گیا۔ اس نے اپنے پستول سے نوجوان لڑکوں پر ٹھاہ ٹھاہ گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ سارے میلے میں افراتفری مچ گئی۔ چاروں اطراف سے پولیس کی سیٹیاں سنائی دینے لگیں۔

میلہ ختم ہو جاتا لیکن میلے کی کہانیاں زندہ رہتیں

نور پور کی کہانیاں، نئے پرانے یارانے، آنکھ ملنے کے قصے کتنے کتنے دن سارے پوٹھوہار میں گونجتے رہتے۔ میلے سے جو کوئی بھی لوٹتا وہ سب کچھ گنوا کر آتا۔ خالی جیبیں، سینے سے دل غائب، نہ کسی کا دین قائم رہتا نہ ایمان۔

میلے میں جو بھی شریک ہوتا طرح طرح کی کہانیاں لے کر لوٹتا اور پھر  چٹخارے لے لے کر یہ کہانیاں سنائی جاتیں۔ کوئی کہتا فلاں نے مجھے آنکھ ماری تھی۔ کوئی کہتا جب وہ اسے ’ویل‘ کا پیسہ تھما رہا تھا تو اس نے اس کے ہاتھ پر چٹکی کاٹی تھی، کوئی کہتا کہ ناچتی ناچتی وہ بار بار اس کی طرف پیاسی نظروں سے دیکھنے لگ جاتی تھی۔

کئی لوگ گانا سنتے ہوئے یا ناچ دیکھتے ہوئے وجد میں آ جاتے تھے۔ وہ اٹھ اٹھ کر خود گانے لگ جاتے تھے۔ نشے میں بدمست رجواڑے سونے کی ہمیلیں اور گوکھڑو گانے والیوں کے سروں پر نچھاور کر کے ان کے قدموں میں ڈھیری کرتے رہتے۔ کئی تماش بین گانا سنتے ہوئے دھاڑیں مار کر رونے لگ جاتے۔

ایک بار کسی رقاصہ نے محفل میں اترتے ہی یہ بول گایا:

کوئی کٹوی چاہ والی

کتھے وے چھپاساں جندڑی

لکھاں گناہ والی

اس کے بعد اس محفل میں کوئی آنکھ ایسی نہیں تھی جو بھیگی نہ ہو۔ گانے والی رقاصہ خود چھم چھم آنسو رو رہی تھی۔ ’کتھے وے چھپاساں جندڑی گناہ والی‘۔ لوگ بار بار گاتے اور یا بری امام  پکارتے۔

یہ بری مام کے مزار کے ایک صدی پہلے کا منظر ہے۔ آج یہاں تکثیری سماج نہیں ہے ہندو، سکھ سرحد کی دوسری طرف جا چکے ہیں۔ اب بری مام کے عرس پر میلہ تو لگتا ہے لیکن اس میں رقص و سرود کی محفلیں نہیں سجائی جاتیں۔ قوالیاں البتہ ہوتی ہیں۔

لوگ دھمال ڈالتے ہیں۔ لیکن عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ ایک مسلک سے دوسرے کو خطرہ ہے۔ صوفیا امن، محبت اور بقائے باہمی کا جو درس دیا کرتے تھے اسے بھلا دیا گیا ہے۔ صرف صاحب ِ مزار پر چادر رہ گئی ہے اور کسی کے سر پر چادر سلامت نہیں ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ