مکلی کو نقلی بننے سے روکنے کی ضرورت

اگر مکلی کے تاریخی قبرستان میں بحالی کے کام کا انداز یہی رہا تو اسے ثقافتی ورثے کی عالمی فہرست سے باہر یا پھر ’خطرے سے دوچار آثار‘ کی فہرست میں شمولیت سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

سیلاب سے بے گھر ہونے والے افراد 27 اگست، 2010 کو ٹھٹھہ ضلعے میں واقع مکلی کے قبرستان میں ایک قبر کے قریب آرام کر رہے ہیں (اے ایف پی)

سندھ کے شہر مکلی جانا ہو اور وہاں کے قدیم قبرستان نہ جایا جائے تو سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔

دروازے پر موجود ٹکٹ روم اور ساتھ ہی ایک کمرے میں غیر ملکی سیاحوں کی حفاظت کے لیے موجود اہلکاروں کو دیکھ کر اچھا لگا۔
 
لیکن جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو پھر سے وہی حال جو پاکستان میں زیادہ تر آثار قدیمہ کا ہوتا ہے۔
 
نہیں، میں مکلی کے قدیم قبرستان کی حالت زار کی بات نہیں کر رہا بلکہ بات کر رہا ہوں کہ یونیسکو ورلڈ ہیریٹج کی اس سائٹ پر کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا جو نہیں کیا گیا۔
 
کئی کلومیٹر پر محیط اس قبرستان کو دیکھنے کے لیے پیدل چلنے کی ہمت تو نہیں بندھتی، اس کے لیے گالف کارٹ کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
 
لیکن مشکل سے دو کلومیٹر کے سفر کے بعد ہمارے گائیڈ نے کہا کہ گاڑی پر صرف ایک حد تک جا سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد سڑکیں کچی ہیں اور وہاں پر گالف کارٹ پر نہیں جا سکتے۔
 
مکلی میں جس سے بھی بات کی اس نے مبینہ بدعنوانی کی بات کی اور کہا کہ رقم تو مختص ہوتی ہے پر جاتی کہاں ہے اس کا نہیں معلوم۔
 
کسی نے کہا کہ اس کی حالت ایسی جان بوجھ کر رکھی ہوئی ہے تاکہ جس نے اس کو ہیریٹج قرار دیا ہے وہی رقم لگائے اور اس کو بہتر بنائے۔
 
صدیوں کی قدامت کو درودیوار میں سمیٹے مقبروں اور تاریخی آثار کی بحالی کا کام جاری ہے، لیکن ماہرین کے نزدیک کام کا انداز ’تسلی بخش‘ نہیں۔
 
انھیں خدشہ ہے کہ اگر کام کا انداز یہی رہا تو مکلی کو ثقافتی ورثے کی عالمی فہرست سے باہر یا پھر ’خطرے سے دوچار آثار‘ کی فہرست میں شمولیت سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
 
ٹھٹھہ کے گورنر مرزا عیسیٰ خان ترخان ثانی کے تقریباً 400 سال قدیم مقبرے پر بحالی کے کام کے حوالے سے مختلف حلقوں کے بہت سے اعتراض سامنے آئے ہیں۔
 
اگر عیسیٰ خان ترخان کے مقبرے کے بعد جام نظام الدین کے مقبرے کے کام میں بھی ’مہارت‘ کا عالم یہی رہا تو مکلی کے اس ورثے کو ہم کھو دیں گے۔
 
مرزا عیسیٰ خان ترخان کا پورا مقبرہ زرد رنگ کے پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں ایک بڑا گنبد بھی ہے۔ محرابوں پر قرآنی آیات کندہ ہیں جو خطاطی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
 
حالیہ تنازع اسی مقبرے کی بحالی کا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس مقبرے کے فرش کی بحالی کا کام کیا گیا جس میں مقبرے کے نصف فرش کے قدیم پتھروں کو اکھاڑ کر نئی ٹائلوں سے مزین کیا گیا۔
 
مقبرے کا بقیہ نصف فرش قدیم پتھروں پر مشتمل ہے۔ نئی ٹائلوں کے استعمال کے پیش نظر شاید مقبرے کے فرش کی خوبصورتی ضرور رہی ہو گی، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کم از کم 400 سال پرانے پتھروں کو اکھاڑ کر تاریخی آثار ضائع کر دیے گئے ہیں۔
 
اکھاڑے گئے پتھر مقبرے کے قریب ہی موجود ہیں اور مقبرے کے احاطے میں بہت سی نئی غیر استعمال شدہ ٹائلیں موجود تھیں۔
 
اس دو کلومیٹر کے سفر کے دوران کئی کہانیاں سننے کو ملیں۔ اب وہ درست تھیں یا نہیں یہ نہیں معلوم۔
 
2010 کی بارشوں میں مکلی کے باسیوں کو اسی قبرستان میں ٹینٹ لگا کر ٹھہرایا گیا، جس سے اس قبرستان کو بہت نقصان پہنچا۔

پھر مقامی آبادی نے کسی افواہ پر قبروں کو کھود دیا یا اس پر لگے پرانے پتھروں کو ہٹا دیا کہ اس کے اندر قیمتی پتھر اور جواہرات موجود ہیں۔

گذشتہ آٹھ سال میں عالمی معیشت کے مقابلے میں سیاحت زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔
 
دنیا بھر میں ایک ارب لوگ ہر سال بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور ان میں سے سیاحوں کی آدھی تعداد ترقی پذیر ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان ایسا ملک ہے جس کے پاس سیاحوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔
 
پاکستان نے اب تک تیسری کیٹیگری یعنی ثقافتی سیاحت پر، جس میں مذہبی ثقافت بھی شامل ہے، توجہ دینی شروع نہیں کی۔ ملک میں قدیم تہذیبوں کے آثار موجود ہیں۔
 
صوفی مزار، ہندو مندر، سکھوں کے گردوارے اور بدھ مت کی خانقاہیں موجود ہیں، لیکن غیر ملکی سیاحوں کے لیے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستان انڈیا، سری لنکا اور دیگر علاقائی ممالک سے پیچھے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں سیاحت کی صنعت میں سیاسی اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں سفر اور سیاحت کی صنعت کا جی ڈی پی میں 6.9 فیصد حصہ تھا، یعنی 19.4 ارب ڈالر۔
 
ایک اندازے کے مطابق 2027 تک سفر اور سیاحت کا جی ڈی پی میں حصہ 7.2 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے، اور کیوں نہ بڑھے؟
 
یہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی اور کئی آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں کا ملک ہے، بے بہا آثار قدیمہ کے مقامات ہیں، دریا ہیں، ایک طرف چولستان کا ریگستان ہے تو دوسری جانب سرفرنگا کا سرد ریگستان۔
 
مذہبی سیاحت ایک بہت بڑی صنعت ہے۔ مذہبی سیاحت کی ویب سائٹس کے مطابق آج بھی کم از کم 300 ملین افراد دنیا بھر میں مذہبی سیاحت کے لیے اہم مذہبی مقامات پر جاتے ہیں۔
 
ہر سال 600 ملین اندرونی اور بیرونی دورے کیے جاتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں 18 ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔
 
پاکستان ہی میں دنیا کا سب سے قدیم سوئے ہوئے بدھا کا مجسمہ ہری پور میں ہے، لیکن پھر بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
 
کوریا، چین اور جاپان کے بدھ مت پیروکاروں کے لیے خیبر پختونخوا میں تخت بائی اور شمالی پنجاب میں دیگر مقامات مذہبی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان ممالک سے یہاں کوئی نہیں آتا۔
 
سیاحت معاشی ترقی کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے زرمبادلہ ملک میں آتا ہے اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں، لیکن اگر اس کی صحیح طور پر نگرانی نہ کی جائے تو اس کے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں جیسے کہ ماحول کی آلودگی، مقامی تہذیب کا خاتمہ وغیرہ۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ