یہ اپریل 2007 کا ایک معمول کا دن تھا، جب ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار میں محرم کے جلوس کے دوران نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
فائرنگ کا یہ واقعہ ضلع کرم میں اگلے تقریباً چار سال تک شدید بد امنی اور قتل وغارت کی وجہ بنا۔
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے پروفیسر ارمان اللہ بنگش نے 2022 میں ضلع کرم کے امن معاہدے پر ’سینٹر فار ایڈووکیسی ریسرچ اینڈ کمیونیکیشن‘ نامی جریدے میں ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔
اس مقالے کے مطابق 2007 کے جلوس پر فائرنگ کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے اور ضلع کرم کی تاریخ میں پہلی بار شدید فرقہ ورانہ جنگ شروع ہوگئی، جس میں لگ بھگ تین ہزار افراد جان سے چلے گئے اور پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
ان فسادات کے شروع ہوتے ہی ٹل پاڑہ چنار مرکزی شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دی گئی جبکہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف بھاری ہتھیاروں سے حملے جاری رہے۔
اسی دوران نومبر 2007 میں پاڑہ چنار کی سنی مسجد سے نکلنے والے افراد پر دستی بم پھینکا گیا، جس نے کشیدگی کو مزید ہوا دی۔
تحقیقی مقالے کے مطابق اس وقت حالات اتنے کشیدہ ہو گئے تھے کہ گراؤنڈ پر سکیورٹی فورسز کی موجودگی کے باوجود حالات پر قابو پانے کے لیے گن شپ ہیلی کاپٹرز کا سہارا لیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد دسمبر 2007 میں پاڑہ چنار میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک امیدوار کے انتخابی مہم پر خودکش حملے کے نتیجے میں 47 افراد جان سے گئے اور 2008 میں حالات مزید گھمبیر ہو گئے۔
جون 2008 میں ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس وقت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا جن کا مطالبہ تھا کہ علاقے میں امن قائم کیا جائے۔
2007 میں شروع ہونے والے ان فرقہ ورانہ فسادات میں پاڑہ چنار اس وجہ سے زیادہ متاثر ہوا تھا کہ ٹل چنار روڈ کی بندش سے اس علاقے کا رابطہ ملک کے دیگر علاقوں سے منقطع ہوگیا تھا۔
راستے کی بندش کے باعث اشیائے خوردونوش، ادویات، پیٹرول اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت پیدا ہوگئی اور پاڑہ چنار کے رہائشی افغانستان کے صوبہ پکتیا کے راستے طورخم بارڈر سے پاکستان میں داخل ہونے پر مجبور ہو گئے۔
جب حالات بے قابو ہو گئے تو اس وقت کی حکومت نے اسلام آباد میں 2008 میں ایک سرکاری جرگہ بلایا، جس کا بنیادی مقصد ٹل پاڑہ چنار شاہراہ کو کھولنا، یرغمالیوں کو رہا کرنا اور دونوں فریقین کے درمیان امن قائم کرنا تھا، لیکن یہ جرگہ ناکام رہا۔
تحقیقی مقالے کے مطابق اس کے بعد اہلِ تشیع اور سنی مشران پر مشتمل 50 اراکین کا ایک جرگہ مری میں بلایا گیا، جسے ’مری معاہدہ‘ کہا جاتا ہے، جو کرم کی ان دونوں برادریوں کے مابین اعلیٰ سطح پر پہلا تحریری امن معاہدہ تھا۔
اس معاہدے پر دونوں فریقین نے دستخط کیے اور جرگے نے امن معاہدے کو نومبر 2008 سے نافذ کرنے کی ذمہ داری بھی اٹھائی۔
مری معاہدے کے نکات کیا تھے؟
مقالے کے مطابق اس امن معاہدے میں نو بنیادی نکات شامل تھے۔
امن معاہدے کا پہلا نکتہ ٹل پاڑہ چنار شاہراہ کو کھولنا اور دوسرا نکتہ جنگ کے باعث نقل مکانی کرنے والے تقریباً دو لاکھ افراد کو پر امن طریقے سے واپس کرم بھیجنا تھا۔
تیسرا نکتہ یہ تھا کہ دونوں فریقین نے جو علاقے ایک دوسرے سے قبضہ کیے ہیں، وہ واپس دینے تھے (تاہم اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا)
اسی طرح چوتھا نکتہ 2007 کے فسادات میں ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کرنا تھا جبکہ پانچواں نکتہ نقل مکانی کرنے والے افراد کو حکومت کی جانب سے فی کس تین لاکھ روپے معاوضے کی ادائیگی تھی۔
چھٹا اور اہم نکتہ یہ تھا کہ جس کسی نے بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اسے دو کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
ساتواں نکتہ یہ تھا کہ دونوں فریقین غیر ریاستی عناصر کی حمایت نہیں کریں گے جبکہ آٹھویں نکتہ یہ تھا کہ اس معاہدے کے نکات کی ذمہ داری جرگہ اراکین پر ہوگی۔
اسی طرح معاہدے میں زیادہ متاثرہ علاقے پاڑہ چنار کے حوالے سے مزید چار نکات شامل کیے گئے تھے۔
گو کہ تحقیقی مقالے کے مطابق یہ امن معاہدہ 2008 کی بجائے 2011 میں نافذ العمل ہوا، تاہم اسی معاہدے کے بعد امن کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
مری معاہدہ
ملک عطا اللہ کا تعلق ضلع کرم سے ہے اور مری معاہدے میں وہ اہل سنت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مری معاہدے سے پہلے مختلف نشستیں اسلام آباد اور پشاور میں ہوئی تھیں اور اس کے بعد حتمی طور پر مری میں ایک جرگہ بلایا گیا تھا جس میں مری معاہدے میں شامل نکات کی منظوری دی گئی تھی۔
عطا اللہ کے مطابق اس معاہدے پر ابھی تک باقاعدہ طور پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے اور کرم کے تنازعے کی بڑی وجہ وہاں پر زمینی تنازعات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’کرم واحد قبائلی ضلع ہے جہاں سرکاری زمینی ریکارڈ موجود ہے لیکن حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔‘
عطا اللہ کے مطابق زمینی تنازعات کے حل کے لیے 2022 میں ایک کمیشن بھی بنایا گیا ہے لیکن اس کمیشن نے ابھی تک یہ تنازعات حل نہیں کیے۔
عطا اللہ کے مطابق دوسری وجہ کرم میں بھاری اسلحہ ہے اور اس کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے اسلحے کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔
’افغان جنگ کے بعد کرم میں اسلحے کا بڑا ذخیرہ کیا گیا ہے اور حکومت کو اب اسلحے کو ختم کرنا ہے تب ہی جنگ ختم ہو سکتی ہے۔‘
عطا اللہ کے مطابق اب جو جرگے وغیرہ ہوتے ہیں تو یہ مری معاہدے کا تسلسل ہے اور اسی مری معاہدے کی وجہ سے کیے جاتی ہیں لیکن حکومت اگر اس معاہدےکے نفاذ میں سنجیدہ کردار ادا کرسکے۔
مری معاہدہ اب کیوں نافذ نہیں ہو سکتا؟
مری معاہدے کے نفاذ کے بعد 2011 میں ضلع کرم کے حالات قدرے بہتر ہوگئے اور ٹل پاڑہ چنار شاہراہ کو بھی کھول دیا گیا تھا۔
اس کے بعد چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن 2023 میں دوبارہ کشیدگی شروع ہوئی، جو اب تک جاری ہے۔
اس دوران مختلف مقامی جرگے ہوتے رہے، جن سے کچھ وقت کے لیے امن قائم رہتا ہے لیکن اس کے بعد دوبارہ کسی نہ کسی تنازعے کے بعد فرقہ ورانہ فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ چونکہ حالات بالکل 2007 جیسے ہیں تو مری معاہدے پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جا سکتا یا اسی معاہدے کی طرح اعلیٰ سطح پر ایک جرگہ کیوں نہیں بلایا جا سکتا۔
اس سوال کے جواب میں پشاور میں مقیم صحافی رفعت اورکزئی، جو 2007 سے 2011 تک کرم کے فرقہ ورانہ فسادات کی کوریج کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ایک ’چیلنجنگ کام ‘ ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ کرم کے حالات پر مری معاہدے سے پہلے بھی معاہدے ہوئے ہیں اور تقریباً ہر 10 سال بعد یہاں ہونے والے شدید فسادات کے بعد امن معاہدے کیے جاتے ہیں۔
تاہم رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق مری معاہدہ ایک تفصیلی معاہدہ تھا اور اب بھی جب ہم دونوں جانب کے مشران سے بات کرتے ہیں تو مری معاہدے کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مری معاہدے پر آج بھی دونوں فریق متفق ہیں ’لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد کی ضرورت ہے اور یہی سب سے چیلنجنگ کام ہے۔ ‘
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے 21 نومبر کو گاڑیوں پر حملے کے تقریباً ایک ہفتے بعد کرم واقعے پر بدھ (27 نومبر کو) اجلاس بلایا تھا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق اجلاس میں اہم مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کے دستے تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ جھڑپوں میں جانی و مالی نقصان کا تخمینہ لگانے کی بھی ہدایت کی ہے۔
صوبائی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں حالیہ احتجاج سے پہلے صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کی سربراہی میں ایک سرکاری جرگے نے کرم کا دورہ بھی کیا تھا، جس میں صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف، کمشنر کوہاٹ اور دیگر حکام شامل تھے۔
جرگے سے واپسی پر بیرسٹر محمد علی سیف نے کرم میں ایک ہفتے تک فائر بندی کا اعلان کیا تھا، تاہم اعلان کے باوجود کرم میں پولیس کے مطابق جھڑپیں بدستور جاری ہیں۔